کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 49
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہو: کیا میں تمھیں بتلاؤں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ خسارہ پانے والا کون ہے؟ وہ لوگ جن کی ساری جدوجہد دنیا کی زندگی ہی کے لیے گم ہو گئی اور وہ سمجھتے رہے کہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘‘ یہ دنیا تو تھی آخرت بنانے اور سنوارنے کے لیے ، مگرانھوں نے سمجھا کہ دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ،اور کچھ وہ بھی ہیں جو آخرت کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر جو کچھ کرتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا اور آخر ت میں کامیابی کے لیے نہیں،بلکہ دنیا میں نام پانے کے لیے کرتے ہیں۔مثلاً ہسپتال بناتے ہیں، خیراتی ادارے تعمیر کرتے ہیں ،ویلفیئر کے بڑ ے بڑھ چڑھ کر کام کرتے ہیں،اورپھر ناموں کی تختیاں نصب کر واتے ہیں، اورا پنے ان عزائم کی تکمیل کے لیے کونسل اور اسمبلی اور دیگر اداروں کی ممبری کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں اور اس کے حصول کے لیے کمایا ہوا مال بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔سیاست کو عبادت سمجھتے ہیں، اورخدمتِ خلق غریب پردری کے دلفریب نعروں میں مگن رہتے ہیں۔ اور جس عبادت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں پیدا کیا ہے اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، یہی لوگ اس آیت کا مصداق ہیں اور بہت کچھ کرنے کے باوجود گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔ دنیا کے انھی مقاصد اور مراتب کو حاصل کرنے کے لئے انسان حلال وحرام، جائز وناجائز کی تمیز ختم کر دیتا ہے،بلکہ دوسرے انسانوں کی جان ومال کو ضائع کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا، لیکن جو خوش نصیب اپنی فکر، آخرت بنا لیتا ہے، وہ بہر نوع فسادفی الأرضسے بچ جاتا ہے۔ اور دنیوی کھوکھلے نعروں کو چھوڑ کر عمل وتقویٰ کی زندگی اختیار کرتا ہے ،جھوٹ ، فریب، دھوکہ سے بچ کر صدق وصفائی سے اپنے معاملات کو پورا کرتا ہے، اور یوں اس کی دنیا صاف ستھری ہو جاتی ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔