کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 48
المؤمنین آپ نے تو اپنے بعد ہونے والے خلفاء کو ذلت میں ڈال دیا، انھوں نے فرمایا: اے ابو الحسن رضی اللہ عنہ !مجھے ملامت نہ کرو۔ وَالَّذِیْ بَعَثَ مُحَمَّداً بِالنُّبُوَّۃِ لَوْ أنَّ عَنَاقاًذَھَبَتْ بِشَاطِیِٔ الْفُرَاتِ لَأُخِذَ بِھَا عُمَرُ یَوْمَ الْقَیَامَۃِ۔(ازالۃ الخفاء :ص ۲۸۴ج۳) ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنایا اگر ایک بکری کا بچہ بھی فرات کے کنارے پر ضائع ہو گیا تو قیامت کے دن اس پر عمر رضی اللہ عنہ پکڑا جائے گا۔ ‘‘ یہ ہے قیامت پر ایمان ویقین کا نتیجہ ، لیکن انسان جب آخرت کی جواب دہی سے بے پرواہ ہو جاتا ہے تو انسان نہیں وحشی اور درندہ بن جاتا ہے۔ حرص وہوا میں پھنس کر بھیڑیئے کا کردار ادا کرتا ہے۔ أعاذنا اللہ منہ کفار بھی قیامت کا انکار کرتے اور اپنی عیش وعشرت کی زندگی میں اس پر ایمان کو رکاوٹ سمجھتے تھے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖ اِلَّا کُلُ مُعْتَدٍاَثَیِمْ ﴾(المطففین:۱۲) ’’اور اس کو بس وہ جھٹلاتا ہے جو حد سے گزرنے والا گناہوں میں پڑا ہوا ہے۔‘‘ اسی قماش کے لوگوں کا کہنا ہے۔ بابر با عیش گوش کہ عالم دوبارہ نیست چنانچہ ان کی ساری تگ ودو دنیا سنوارنے اور اسے حاصل کرنے میں ہوتی ہے، بلکہ بسااوقات اس کی طلب وتڑپ میں جو کچھ سعی وکوشش کرتا ہے اس کے بارے میں سمجھتا ہے کہ یہ سب اچھا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بدنصیبوں کے بارے میں فرماتے ہیں: ﴿قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالاًo الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاًo﴾ (الکھف:۱۰۴،۱۰۵)