کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 47
کھاناتیار کیا، دستر خوان پر لگایا، ہم کھانا کھانے لگے تو ایک چرواہا ادھر آنکلا ۔ اس نے سلام کہا تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی ، مگر اس نے کہا :کہ میرا روزہ ہے، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بڑے تعجب سے فرمایا: گرمی کے ایام میں روزہ بھی ہے اور بکریاں بھی چرا رہے ہو، اس نے کہا: اللہ کی قسم میں اپنے فراغت کے ایام کو غنیمت جانتا ہوں، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا امتحان لینا چاہا ، اسے فرمایا: اپنی بکریوں سے ایک بکری ہمیں فروخت کردو، ہم اس کا گوشت بھی تمھیں دیں گے، اس سے تم اپنا روزہ افطار کر لینا، مگر اس نے کہا: کہ یہ بکریاں میری نہیں، بلکہ میرے مالک کی ہیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امید ہے کہ ایک بکری کے گم ہوجانے پر تیرا مالک کوئی پرواہ نہیں کرے گا، اگر کوئی بات ہو تو تم کہہ دینا بکری بھیڑیا لے گیا تھا، اس نے کہا: فأین اللّٰہ پھر اللہ کہاں ہے؟ وہ باآوازِ بلند یہ کہتا اور آسمان کی طرف اشارہ کرتا تھا،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مدینۂ طیبہ واپس پلٹے تو اس چروا ہے کے مالک سے ملے، اس سے چروا ہے کو بکریوں سمیت خرید کر آزاد کر دیا اور بکریاں اسے ہبہ کر دیں۔ (طبرانی،شعب الایمان، السیر: ص۲۱۶ج۳)
امیر المؤمنین سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حکم جاری کر دیا کہ خبردار کوئی بھی اشیائے خوردنی میں ملاوٹ نہ کرے، ایک رات آپ چوکیداری کرتے ہوئے مدینۂ طیبہ کے اطراف میں نکل گئے، رات گئے جب تھک کر چور چور ہو گئے تو ایک گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ گھر سے آواز آئی کہ ایک عورت اپنی لڑکی سے کہہ رہی ہے اٹھو دودھ میں پانی ملا دو،بیٹی بولی: اماں تمھیں معلوم نہیں امیر المؤمنین نے بڑی سختی سے منع کیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملاؤ، بوڑھی ماں نے کہا: بیٹی دودھ میں پانی ملا دو تم ایسی جگہ پر ہو جہاں تمھیں عمر رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ کا کوئی کارندہ نہیں دیکھ رہا، بیٹی بولی: ماں اگر عمر رضی اللہ عنہ نہیں دیکھتا تو عمر رضی اللہ عنہ کا اللہ تو ہمیں دیکھ رہا ہے، میں دودھ میں ہر گز پانی نہیں ملاؤں گی۔ ( شذرات الذھب:ص۱۱۹ج۱)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ اونٹ کا سامان و پالان کندھے پر رکھے جارہے ہیں، میں نے کہا: امیر المؤمنین آپ کہاں جار ہے ہیں، انھوں نے فرمایا: صدقہ کا ایک اُونٹ بھاگ گیا ہے میں اس کو پکڑنے کے لیے جا رہا ہوں۔ میں نے کہا : امیر