کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 46
بلا بلاتردد اسے اختیار کر لیتا ہے اور اگر نقصان سمجھتا ہے تو اسے چھوڑ دیتا ہے، مگر قیامت کا انکار محض تردد اور شک کی بنا پر کیا، حالانکہ عقل وفکر کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسے تسلیم کر لیتے ۔کیونکہ اگر قیامت حق ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تو اس کے انکار سے خطرات اور عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا، اس لیے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے اور نبی علیہ السلام کی ہدایت پر عمل کیا جائے، اس راہ میں گومشقت ہے، لیکن نفع سے خالی نہیں، اس لیے عقل کی بنیاد پر قیامت کا انکار بجائے خود عقلمندی کا ثبوت نہیں۔
(۲) کفار نے قیامت کا انکار کیا اور اس کے قیام کو عقل وفکر کی بنا پر محال اور ناممکن قرار دیا، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اجزائے ایمان میں ایک اہم جز قرار دیا ہے، عقائد کے بنیادی تین اصول جو تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں قدرِ مشترک رہے ہیں ان میں ایک یہی آخرت پر ایمان ویقین ہے، قیامت پر ایمان دراصل اصلاحِ احوال واعمال اور معصیت وجرائم کے سامنے ایک آہنی دیوار ہے ، دنیا میں پائدار امن اس عقیدہ کے بغیر ممکن نہیں، انسان کی ظاہری اور باطنی حالت کی اصلاح ، اس کی خلوت وجلوت میں یکسانیت،اللہ پر ایمان اور عقیدۂ آخرت کی بنا پر ہی ہو سکتی ہے۔ اسی عقیدہ پر یقین وعمل سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی دنیابدل گئی، اور اسلام کے ابتدائی دور میں ایسا پاکیزہ معاشرہ وجود میں آیا کہ اس سے بہتر معاشرہ چشمِ فلک نے نہ اس سے پہلے دیکھا نہ ہی اس کے بعد۔ جرائم کے انسداد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے قانون بنتے ہیں، سزائیں مقرر ہوتی ہیں، مگر جرائم ہیں کہ ان کے خاتمے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ، کوئی بھی اپنے منصب کی ذمہ داری اور اس کا فریضہ ادا نہیں کرتا ، کوئی معاملہ اور محکمہ دھوکہ، فریب ،جھوٹ ،کرپشن، رشوت اورچوری سے محفوظ نہیں۔ یہ سب ایسا کیوں ہے؟
اس لیے کہ دلوں میں اللہ د کا ڈرنہیں رہا اور آخرت کی جواب دہی سے ہم بے خوف ہو چکے ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام اور شاگردِ رشید حضرت نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینۂ طیبہ سے باہر تھے، ساتھیوں نے