کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 45
مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْ الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ إِنْ ہٰذَا إِلَّااخْتِلَاقٌo﴾ (ص:۵۔۷)
’’کیا اس نے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور سردارانِ قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر یہ بات تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے۔ یہ بات ہم نے زمانۂ قریب کی کسی ملت سے نہیں سنی ،یہ کچھ نہیں ہے،مگر ایک من گھڑت بات ہے۔‘‘
یعنی عیسائی ہیں، یہودی ہیں ، مجوسی ہیں، سبھی اللہ کے پیاروں کو مانتے اور ان کی عبادت کرتے ہیں ان کی نذریں دیتے ہیں ان کو پکارتے اور ان سے اولادطلب کرتے ہیں، مگر اب یہ نئی بات سن رہے ہیں کہ معبود صرف ایک ہی ہے، گویا توحید، رسالت اور قیامت کا انکار محض عقل کی بنیاد پر ہے ،بلکہ بعد کے دور میں قرآنِ مجیدکے کلامِ الہٰی ہونے، عذابِ قبر، پل صراط ، معراجِ جسمانی، میزان اور وزنِ اعمال کا انکار بھی اسی عقل پرستی کا نتیجہ ہے ۔ حکیم مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا: ؎
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
عقل آیاتِ الہٰی میں غوروفکر کر کے تسلیم ورضا کو مزید پختہ کرنے کے لیے ہے، آیات واحکام کے انکار کے لیے نہیں، بلکہ عقل کاامتحان یہی ہے کہ وہ خود فریبی میں مبتلا ہوتی ہے یا وحی کی تابعداری کرتی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا: ؎
عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی
حسبی اللہ گو کہ اللہ ام کفی
عقل کے ان پرستاروں کا زندگی بعد الموت پر جو تردد اور شک تھایہ بجائے خود عقلمندی کے خلاف ہے۔ دنیا میں جتنے کام انسان کرتا ہے وہ سب کے سب یقینی اور حتمی طور پر نتیجہ خیز اور مفید ہونے کے اعتبار سے ہی نہیں کرتا،بلکہ اکثر وبیشتر کسی معاملے میں شک وترددہو تو وہ دیکھتا ہے کہ منفعت کس جانب ہے اگر وہ سمجھتا ہے کہ فائدہ کرنے میں ہے تو