کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 44
مرکر دوبارہ زندہ ہو جاؤ، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہیں چھوڑوں گا، عاص نے کہا: کیا مر کر زندہ ہو نا ہے؟ فرمایا: بیشک ، عاص نے کہا: اچھا وہیں میرا مال ہو گا وہی رقم دے دوں گا۔(بخاری:۴۷۳۲) یہی عاص بن وائل اور بعض آثار میں ہے کہ ابی بن خلف، قبرستان سے کسی مردہ کی بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے توڑ کر اور اس کے اجزا ہوا میں اڑا کر کہا : اے محمد تم کہتے ہو مردے پھر زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔بتلاؤ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا۔جس پر سورۃ یٰس کی آیت(۷۷،۷۸) نازل ہوئیں۔ ابن کثیر (ص۶۳۹ج۳) وغیرہ انھیں اپنی اس فکر پر اس قدر یقین تھا کہ اس پر قسم کھاتے تھے:
﴿وَأَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لاَ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ بَلیٰ وَعْداً عَلَیْہِ حَقّاً وَلـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾(النحل:۳۸)
’’اور یہ لوگ اللہ کی پختہ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ کسی مرنے والے کو پھر سے زندہ کر کے نہیں اٹھائے گا،اٹھائے گا کیوں نہیں؟ یہ تو ایک وعدہ ہے، جسے پورا کرنا اس نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔‘‘
یہاں دو باتیں مزید قابلِ غور ہیں۔
۱۔ کفار نے قیامت کا انکار کسی دلیلِ سمعی پر نہیں، بلکہ محض عقل کی بنیاد پر کیا کہ انسان مر کر مٹی ہو جاتا ہے اور ہڈیوں کا ڈھانچا بکھر جاتا ہے،وہ بھی ہیں جو دریاؤں اور سمندروں میں جانوروں کا لقمہ بن جاتے ہیں ۔کچھ وہ بھی ہیں جو آگ میں جل کر کوئلہ ہو جاتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو درندوں کی خوراک بن جاتے ہیں، ان کو بھلا پھر سے کیونکر اٹھایا جا سکتا ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار بھی اسی عقل پر ستی کا نتیجہ تھا کہ بشر رسول کیونکر ہو سکتا ہے؟اور توحید کا انکار بھی اسی عقل پر ستی کے نتیجے میں تھا۔ چنانچہ وہ کہتے تھے:
﴿أَجَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلٰہاً وَاحِداً إِنَّ ہٰذَا لَشَیْء ٌ عُجَابٌ o وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْہُمْ أَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلیٰ آلِہَتِکُمْ إِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُo