کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 43
’’اور اس کی قوم کے سرداروں نے کہاجو کافر تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے دنیا میں انھیں دولت دے رکھی تھی کہ یہ تمھارے جیسا انسان ہی تو ہے، جو کچھ تم کھاتے ہو ،وہ بھی وہی کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو وہ پیتا ہے، اور اگرتم ایک بشر کی اطاعت کرو گے، تو بے شک تم نقصان اٹھاؤ گے۔ کیا یہ تمھیں وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور تم مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤ گے تو پھر تم (زمین سے) نکالے جاؤ گے ؟ کہیں ایسا ہو سکتا ہے ۔ بھلا کہیں ایسا ہو سکتا ہے ،یہ وعدہ جو تم سے کیا جارہا ہے ۔ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے ، ہم ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے۔‘‘ وہ صاف صاف کہتے تھے: اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْن(الانعام:۲۹) ’’کہ جو کچھ بھی ہے بس ہماری ہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہر گز مرنے کے بعد نہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘ اس سے متعلق دیگر بہت سی آیاتِ مبارکہ ہیں دیکھئے۔ (الصافات:۱۶، الواقعہ:۴۷، الاسرا: ۴۹،۹۸، سبا:۳) عربی کا شاعر کہتا ہے : أموت ثم بعث ثم حشر حدیث خرافۃ یا أم عمر ’’کیا موت کے بعد پھر اٹھایا جانا ہے پھر جمع ہونا ہے، اے ام عمر یہ فضول بات ہے۔‘‘ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نجار تھے۔ مشہور صحابی حضرت عمرو بن عاص کے باپ عاص بن وائل نے ان کی مزدوری دینا تھی، حضرت خباب رضی اللہ عنہ اس کا تقاضا کرتے تو وہ کہتا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرو گے رقم نہیں دو نگا، حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: