کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 42
﴿أَإذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً ذٰلِکَ رَجْعٌ بَعِیْدٌ﴾(۳) ’’کیا جب ہم مر جائیں گے اور خاک ہو جائیں گے۔ (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے) یہ واپسی (تو عقل سے )بعید ہے ‘‘ بلکہ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تو ہم پر راضی ہے۔ اللہ نے ہمیں انعامات سے نواز رکھا ہے، اس لیے جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے، ہم اس کے مستحق نہیں ہیں: ﴿وَمَا أَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہٖ کَافِرُوْنَo وَقَالُوْا نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالاً وَّأَوْلَاداً وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ ﴾(سبا:۳۴،۳۵) ’’اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیجا ہو اور اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہ نہ کہا ہو کہ جو پیغام تم لے کر آئے ہو اس کو ہم نہیں مانتے، انھوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ ہم تم سے زیادہ مال واولاد رکھتے ہیں اور ہم ہر گز سزا پانے والے نہیں۔‘‘ اس لیے وہ اپنے بارے میں بے خوف تھے اور قیامت کا تصور بعید ازعقل سمجھتے تھے، سورۃ المؤمنون میں قومِ عاد کے متکبرین کے خیالات کو ذرا تفصیل سے یوں بیان کیا گیا ہے۔ ﴿وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِہٖ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِلِقَآئِ الْآخِرَۃِ وَأَتْرَفْنَاہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مَا ہٰذَآ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَأْکُلُ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ o وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَراً مِثْلَکُمْ إِنَّکُمْ إِذاً لَّخَاسِرُوْنo أَیَعِدُکُمْ أَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنْتُمْ تُرَاباً وَعِظَاماً أَنَّکُمْ مُّخْرَجُوْنَ o ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُوْنَo إِنْ ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِیْنَ﴾ (المؤمنون:۳۳۔۳۷)