کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 40
جس نے جو پایا اور کمال حاصل کیا انھی کی پیروی میں حاصل کیا۔ انبیاے کرام علیہم السلام ہی کو اگر نوعِ انسان سے نکال دیا جائے تو انسان کا اعزاز ہی کیا رہ جاتا ہے؟ مگرافسوس جو نفوسِ قدسیہ انسانیت کا اعزاز تھیں عقل کے پجاریوں نے انھیں نبی اور انسان ماننے سے انکار کر دیا۔ تعجب تو ان کے انکار پر ہونا چاہیے، رسول کے انسان ہونے پر نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی باعثِ تعجب ہے کہ رسول ماننے والوں میں ایسے عقیدت مند بھی ہوئے جنھوں نے کہا: وہ بشر نہیں، پیغمبر اور رسول تھے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر معاذ اللہ یہ بھی کہا: کہ وہ الہٰ تھے، اللہ کے بیٹے تھے، اللہ نے ان میں حلول فرمایا ہے، اللہ اور رسول میں کوئی فرق نہیں۔ ﴿ تعالی اللہ عما یصفون﴾خلاصہ یہ کہ بشریت ورسالت کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے نزدیک ہمیشہ ایک معمابنا رہا۔ یہ انکار استکبار کا نتیجہ تھا کفار ومعاندین کا رسول تسلیم کرنے سے انکار، ان کے استکبار کا بھی نتیجہ تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جگہ جگہ ان کے تکبر کا ذکر کیا ہے۔ اس آیت میں بھی ﴿منذر منھم﴾کہہ کر اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ اپنے تکبر کی بنا پر ہی کہتے تھے کہ ہمیں ’’ڈرانے‘‘ دھمکانے آیا ہے، ہمیں کون ہوتا ہے یہ ڈرانے والا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿منذر﴾ تو تمام جن وانس کے لیے تھے ،بلکہ دعوت وتبلیغ کا پہلا حکم ہی یہی تھا۔ ﴿ یَآ أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنْذِرْ ﴾ ’’اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے اٹھو اور ڈراؤ خبردار کرو‘‘ لیکن آپ کے ڈرانے کا فائدہ انھی کو پہنچا جو قیامت کے دن سے خوف کھاتے اور اللہ کے حضور اپنے حساب کتاب کی فکر رکھتے تھے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشَاہَا ﴾(النازعات :۴۵) اسی طرح فرمایا: ﴿إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِیْنٌo لِیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیّاً وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلیٰ الْکَافِرِیْنَ﴾(یٰسٓ :۶۹،۷۰)