کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 39
عقل وفکر کی بات یہ تھی کہ وہ تسلیم کر لیتے کہ یہ اس کا کلام نہیں ،نہ ہی کسی اور انسان کا ہے، بلکہ اللہ وحدہ لا شریک کا ہے۔ مگر افسوس وہ الٹا تعجب رسول ہونے پر کرتے ہیں، کہ بشر رسول کیونکر ہو سکتا ہے؟ یہ اگر اللہ کے نمائندے ہوتے تو بڑی شان وشوکت ہوتی ،مال ودولت ہوتی، اسی تناظر میں انھوں نے کہا:
﴿ لَوْلَا نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْآنُ عَلیٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ ﴾ (الزخرف:۳۱)
’’یہ قرآن دوبستیوں (مکہ وطائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں اترا؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے معاً فرمایا:
’’کیا وہ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ تو اللہ کی عطا اور اس کی محبت ہے جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے ۔
ہر دور میں انبیاء علیہم السلام کے بارے میں یہی بات کہی جاتی رہی کہ یہ نبی نہیں ،کیونکہ یہ بشر ہیں۔ جیسا کہ سورۃ القمر (۲۴) یٰس (۱۵) الانبیاء(۳) التغابن(۶) بنی اسرائیل (۹۴) میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک سیدھا اور صاف جواب یہ دیا ہے کہ
﴿قُلْ لَّوْ کَانَ فِیْ الأَرْضِ مَلآئِکَۃٌ یَمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَلَکاً رَّسُوْلاً﴾(بنی اسرائیل: ۹۵)
’’ان سے کہہ دیں کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے فرشتے ہی کو ان کے لیے رسول بنا کر بھیجتے ۔‘‘
اب تم خود فیصلہ کر لو کہ تم کون ہو، تم اگر بشر ہو تو تمھاری ہدایت اور راہنمائی کے لیے ہم نے بشر ہی کو رسول بنایا ہے۔ رسول کا کام صرف پیغام پہنچا دیناہی تو نہیں،وہ اُمت کے لیے ایک اسوہ اور بہترین نمونہ بھی ہوتا ہے، نوعِ بشر کے لیے بشر ہی نمونہ ہو سکتا ہے، نہ کہ کوئی اور جنس اور نوع۔
انسانیت کا کمال حضرات انبیاے کرام علیہم السلام سے ہے ،نوعِ انسانی کوانھی پر فخر ہے