کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 38
﴿قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلَـکِنَّ اللّہَ یَمُنُّ عَلَی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ﴾(ابراھیم:۱۱) ’’ان کے رسولوں نے ا ن سے کہا: بے شک ہم تو تمھاری طرح ہی بشر ہیں، اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے۔‘‘ اور انھیں نبوت سے سرفراز فرمادیتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اعلان کروادیا: ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحیٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ ﴾ (الکہف:۱۱۰،فصلت :۶) ’’کہہ دیجئے کہ میں تمھاری طرح بشر ہوں، مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے۔‘‘ ﴿قُلْ لَّوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلاَ أَدْرَاکُم بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّنْ قَبْلِہٖ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾(یونس :۱۶) ’’کہہ دیجئے اگر اللہ چاہتا تو میں اس(قرآن) کو پڑھ کر تم کونہ سناتا اور نہ ہی اس کی کچھ خبر دیتا ،بے شک میں اس سے پہلے تم میں طویل عرصہ گزار چکا ہوں کیا تم کو عقل نہیں آتی۔‘‘ میں نے تم میں بچپن گزارا، جوانی گزاری، کاروبار کیا، باہمی معاملات کو نبٹایا ،تم نے مجھے صادق وامین کہہ کر پکارا،اس سے پہلے ایسی باتیں کیوں نہ کیں ،کیا اب یکایک (معاذ اللہ) اتنا ماہر اور جھوٹا بن گیا ہوں کہ قرآنِ مجید خود بنا کر تمھارے سامنے کلامِ الہٰی کے نام سے پیش کر دیا ہے،اگر یہ میرا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ۔تعجب کی تب تو کوئی گنجائش تھی جب انسانوں کی راہنمائی کے لیے کسی غیر انسان کو بھیجا جاتا وہ اگر ایسا کلام پیش کرتا جس کی نظیر لانے سے سبھی انسان عاجز آجاتے ،تو وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ کلام تو جنسِ غیر سے ہے، ہم ایسا کیونکر کر سکتے ہیں؟ ایک جنس دوسری جنس سے مختلف ، ان کے اعمال وافعال مختلف ، ان کا دائرۂ اختیار مختلف ، اس لیے مقابلہ کیسا؟ لیکن جب یہ کلام اس انسان نے پیش کیا ہے جو عرصۂ دراز تک ان میں رہا، اور وہ اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز رہے ،تو