کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 35
﴿بَلْ عَجِبُوْآ أَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْکَافِرُوْنَ ہَذَا شَیْءٌ عَجِیْبٌ ﴾(۲)
’’بلکہ ان لوگوں کوتعجب اس بات پر ہوا ہے کہ ایک خبردار کرنے والا خود انھی میں سے ان کے پاس آگیا ،پھر کافروں نے کہا: یہ عجیب بات ہے۔‘‘
یہاں ﴿بل﴾ اس بات کا قرینہ ہے کہ قسم علیہ محذوف ہے، یعنی معاملہ اس طرح نہیں جس طرح منکرین کہتے ہیں ،کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں، قرآنِ مجید کی قسم! آپ اللہ کے رسول ہیں،مگر انھیں تعجب اس بات پر ہے کہ انھی میں سے ایک رسول ان کے پاس آگیا ہے۔ آپ کی رسالت کے بارے میں کفار نے صاف صاف کہا: ﴿وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلاً ﴾(الرعد:۴۳) کہ آپ رسول نہیں ہیں،اس لیے کہ آپ تو ہم ہی میں سے ایک فرد ہیں، ہماری طرح کھا تے پیتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ قومِ عاد نے یہی بات حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں کہی کہ :
﴿ مَا ہٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یَأْکُلُ مِمَّا تَأْکُلُوْنَ مِنْہُ وَیَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ o وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَراً مِثْلَکُمْ إِنَّکُمْ إِذاً لَّخَاسِرُوْنَ ﴾ (المؤمنون:۳۳،۳۴)
’’یہ تو تمھارے جیسا بشر ہے، جو کچھ تم کھاتے ہو وہ بھی کھاتا ہے اور جو تم پیتے ہو وہ بھی پیتا ہے اور اگر تم نے اپنی طرح کے آدمی کی اطاعت کی تو تم نقصان اٹھاؤ گے‘‘
اسی طرح وہ یہ بھی کہتے تھے:
﴿وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِیْ الْأَسْوَاقِ ﴾(الفرقان:۷)