کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 33
عَجِبُوْا أَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ وَقَالَ الْکَافِرُوْنَ ہَذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ﴾
’’قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی، بلکہ یہی لوگ جنھوں نے ماننے سے انکار کیا ہے ،سخت تکبراور ضدمیں مبتلاہیں ان سے پہلے ہم ایسی کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں۔(جب ان پر عذاب آیاتو) وہ چیخ اٹھے ،مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا ۔ ان لوگوں کو اسی بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انھی میں سے آگیا اور منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحرہے سخت جھوٹا ہے۔‘‘
امام قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ یہاں قسم عزۃ وشقاق میں ہے، اور یہ تکبر اور ضد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار پر مبنی ہے جن کے رسول بنائے جانے پر وہ تعجب کا اظہار کرتے تھے۔
بعض نے کہا ہے کہ جواب قسم یہ ہے کہ ’’قیامت آنے والی ہے‘‘ جیسا کہ بعد کی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں۔
سورۃ طور میں بھی ہے:
﴿وَالطُّوْرِo وَکِتَابٍ مَّسْطُوْرِo فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرِo وَالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِo وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوْعِo وَالْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِo إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ o مَا لَہٗ مِنْ دَافِعٍ ﴾(الطور:۱۔۸)
’’قسم ہے طور کی اور ایسی کتاب کی، جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے، اور آباد گھر کی اور اونچی چھت کی اور موجزن سمندر کی کہ تیرے رب کا عذاب ضرور آنے والا ہے۔ جسے کوئی دور کرنے والا نہیں۔‘‘
یہاں پانچ چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ تیرے رب کا عذاب ضرور آنے والا ہے، اور اس عذاب سے مراد قیامت ہے۔ اسی طرح سورۃ قٓ میں بھی جو ابِ قسم یہ ہے قیامت آنے والی ہے، بلکہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جواب قسمإثبات النبوۃ وإثبات المعاد نبوت اور قیامت دونوں کااثبات ہے۔