کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 32
بنا اور اس سے بڑھ کر الحاد وزندقت کی وادیوں میں چلا گیا، اسلام کی تردید میں کتابیں لکھتا اور اس کے عوض یہودیوں سے مال وزروصول کرتا، مشہور معتزلی ابو علی جبائی سے بغداد کے پل پر ابن راوندی کی ملاقات ہو ئی تو اس نے کہا: قرآن کے مقابلے میں جو کچھ لکھا ہے اس میں سے کچھ سنو گے، جبائی نے کہا میں تیرے شرمناک علوم سے واقف ہوں، اے ابن راوندی میں تم کو ہی منصف تسلیم کرتا ہوں ،بتلاؤ ھَلْ تَجِدُ فِیْ مُعَارَ ضَتِکَ لَہٗ عَذُوْبَۃً وَھَشَّا شَۃً وَ تَشَاکلُاً وَتَلا ؤماً وَنَظْماً کَنَظْمِہٖ وَحَلَاوَتِہٖ ؟قَالَ لَاوَاللّٰہِ قَالَ قَدْ کَفَیْتَنِی فَانْصَرِفْ حَیْثُ شِئْتَ۔ (اعجاز القرآن للرافعی :ص ۲۰۷) ’’کیا تم اپنے قرآن میں وہ مٹھا س، بشاشت ونرمی، موافقت ، درستی اور نظم پاتے ہو جو نظم اور شیرینی قرآ ن میں ہے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم ہرگز نہیں، جبائی نے کہا تم نے فیصلہ کر دیا اب جہاں چاہتے ہو جاؤ۔‘‘ یہ اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات قرآنِ مجید کے اس اعجاز اوراس کی عظمت کی دلیل ہیں، اس کی اند رونی شہادتیں اس پر مستزاد ہیں۔ مگر اس کی تفصیل اور قرآنی اعجازات کا استیعاب یہاں مقصود نہیں، بلکہ مقصد قرآنِ مجید کی بزرگی وعظمت کے چند پہلوؤں کی طرف اشارہ تھا، جس کی یہاں قسم کھائی گئی ہے ۔ قرآنِ مجیدکی یہ قسم کہ﴿وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ ﴾ قرآنِ مجید کی قسم ہے، یہ قسم کس بات پر کھائی گئی ہے، اس کا مقسم علیہ محذوف ہے اور وہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی فرمایا گیا ہے کہ قرآنِ مجید کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور ان کی رسالت کا انکار بلا دلیل ہے، جیسا کہ سورۃ یٰس میں فرمایا ہے کہ﴿ یٰسٓo وَالْقُرْآنِ الْحَکِیْمِ o إِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ﴾’’قرآنِ حکیم کی قسم، بے شک آپ رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔‘‘ سورہ ٔ ص میں بھی فرمایا گیا ہے: ﴿صٓ وَالْقُرْآنِ ذِیْ الذِّکْرِoبَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَشِقَاقٍo کَمْ أَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَّلَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍo بَلْ