کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 31
شعرائے عرب میں ایک نامور شاعر لبید شاعر کا بھی ہے ،کہتے ہیں کہ اس کے ایک شعر پر سوقِ عکاظ میں تمام شعرا ء نے اس کو سجدہ کیا تھا، اور عرب کی روایات کے مطابق اعزاز کے طورپر اس کا قصیدہ بیت اللہ میں آویزاں کیا گیا۔فرزدق نے ایک آدمی سے لبید کا شعر سنا، تو وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور سجدہ میں گر گیا، مگر یہی لبید جب مسلمان ہوا، بلکہ شرف صحبتِ نبوی سے فیض یاب ہوا تو شعر کہنا چھوڑ دیا ۔ جو شاعر، ملک الشعراء اورمسجود الشعراء ہو، اور عرب کی فصاحت وبلاغت کا مظہرِ کامل ہو، اس کا یوں شعر گوئی ترک کر دینا تعجب کا باعث بنا، لوگوں نے پوچھا کہ شعر کیوں نہیں کہتے تو انھوں نے فرمایا: أبعد القرآن، کہ کیا قرآن کے بعد بھی اس کی گنجائش ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عاملِ کو فہ کو لکھ بھیجا کہ لبید سے کہو کہ اسلام لانے کے بعد آپ نے جو اشعار کہے ہیں وہ کیا ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: اشعار کے بدلے اللہ نے مجھے سورۃ البقرۃ اورسورۃ آلِ عمران دی ہے۔ (الشعروالشعراء، الاصابہ) اس عظیم شاعر اور فصاحت وبلاغت کے امام کا قرآنِ پاک کے اعجازو بلاغت کا یوں اعتراف اور اظہار اس بات کا بین ثبوت ہے کہ عرب کی فصاحت وبلاغت نے قرآنِ پاک کے اعجاز اور اس کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے ۔
شعرائے سبعہ معلقہ میں امرا ء القیس وہ شاعر تھا جس کا قصیدہ نزولِ قرآن کے بعد بھی بیت اللہ میں آویزاں رہا اور اس کی بہن نے اسے اتارنے سے انکار کر دیا، مگر جب اس نے قرآنِ مجیدکی طوفان نوح علیہ السلام کے بارے میں یہ آیت سنی:
﴿وَقِیْلَ یَآ أَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَیَا سَمَآئُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآئُ﴾ (ھود:۴۴)
’’اور کہا گیا: اے زمین اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان برسنے سے تھم جا، اور خشک ہو گیا پانی۔‘‘
تو اس نے اپنے بھائی کا قصیدہ بھی اتار دیا۔ (اعجاز القرآن، مصطفی صادق الرافعی :ص ۲۰۴)
ابن راوندی ،جس کا نام احمد بن یحییٰ ابو الحسن المتوفی ۲۹۳ھ، معتزلی تھا ،پھر رافضی