کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 29
’’بے شک یہ قرآن عزت والے فرشتے کا لایا ہوا ہے۔ اور وہ شاعر کا کلام نہیں تم بہت کم یقین کرتے ہو اور نہ کاہن کا کلام ہے تم بہت کم نصیحت پکڑتے ہو۔ سارے جہاں کے مالک کا اُتارا ہوا ہے۔‘‘
گویا یہ قرآنِ مجید، اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے، جبریل علیہ السلام اسے لے کر آئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر پر اس کا نزول ہوا ہے، آپ ا س کو حفظ وضبط کرنے کے لیے جلدی جلدی پڑھتے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہٗ ﴾(القیامۃ:۱۶،۱۷)
’’آپ اپنی زبان نہ ہلایا کریں اس کو جلدی سے یاد کر لینے کے لیے، اس کو تمھارے دل میں جما دینا اور اس کا پڑھادینا ہمارا کام ہے۔‘‘
یہی بات اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ طٰہٰ آیت(۱۱۴) میں بھی بیان فرمائی ۔اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اطہر میں محفوظ ہونے کی تخصیص نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ نے بالعموم فرمایا ہے کہ:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾(الحجر :۹)
’’بے شک ہم نے ہی ذکر کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
صحیح مسلم میں حضرت عِیَاض المجاشعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
أنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَاباً لَا یَغْسِلْہُ الْمَائُ۔(مسلم :ص ۳۸۵ج۲ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا ،باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا أھل الجنۃ وأھل النار)
’’کہ میں نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جسے پانی نہیں دھو سکے گا۔‘‘
چنانچہ کتاب اللہ کی یہ حفاظت وصیانت قرنِ اول سے تا ہنوز ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کے ذریعے سے ہو رہی ہے،بچے،جوان، بوڑھے ،خواہ مرد ہیں یا عورتیں اس سعادت سے تواتراًبہرہ ورہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ سیکڑوں صفحات پر مشتمل کتاب اللہ کا یہ اعجاز ہے کہ اس کو ضبط وحفظ کرنے والوں نے اسے چھ ماہ میں ، تین ماہ میں ،حتی کہ ایک