کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 28
ہیں۔ حتی کہ کوئی نہیں جانے گا کہ روزہ کیا ہے، نہ نماز کو جانے گا،نہ حج کو، نہ صدقہ کواور وہ کتاب اللہ ایک ہی رات میں چل دے گی،تو اس میں سے ایک آیت بھی زمین پر نہیں رہے گی۔‘‘
منکرین وملحدین قرآنِ مجید اور اس کی تعلیمات کو ختم کرنے کے درپے ہیں، مگر ان کو یہ خبر نہیں کہ قرآنِ مجید کا وجود تو دنیا کے وجود کا باعث ہے، جبقرآنِ مجید نہیں ہوگا تو یہ دنیا بھی اپنا جواز کھو بیٹھے گی، گویا اللہ کا کلام دنیا کے وجود وبقاکا ضامن ہے، مگر ناداں اس کے پیچھے پڑے ہیں۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔
قرآن اللہ نے نازل فرمایا ہے
قرآنِ مجید کی عظمت اس اعتبار سے بھی نمایاں ہے کہ اس کے من جانب اللہ ہونے اور اس کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہونے ،دونوں کا اظہار قرآنِ مجید ہی میں موجود ہے اور اس کا معجزہ ہونا ،جس طرح اس کے نزول کے وقت تھا آج بھی اس کا اعجاز بدستور قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا، قرآنِ پاک کی بیان کردہ آفاقی شہادتیں نت نئے دن اس کی صداقت اور اس کے من جانب اللہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی رہتی ہیں۔ نہایت اختصار سے عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنoنَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ oعَلَی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنذِرِیْنَ ﴾ (الشعراء : ۱۹۲،۱۹۴)
’’بے شک یہ قرآن اسی کا اتارا ہوا ہے جو سارے جہانوں کارب ہے۔ اسے لے کر تیرے دل پر امانت دار روح ( جبرئیل علیہ السلام ) اتری ہے تاکہ تم ان میں شامل ہو جاؤ جو ڈرانے والے ہیں۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿إِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍo وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلاً مَّا تُؤْمِنُوْنَo وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ oتَنْزِیْلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴾(الحاقۃ: ۴۰،۴۱،۴۲)