کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 26
اور اس کو نظر انداز کرنے والوں کو نیچے گرا دے گا۔ ‘‘ قرآنِ مجیدواد غیرذی زرعمیں نازل ہوا، جو اس کے اولین مخاطب تھے وہ امی، تعلیم وتعلم سے ناآشنا ، نہ تمدن ،نہ معیشت ،نہ صنعت وحرفت، نہ اتفاق واتحاد ،بلکہ قبائلی حمیت ان میں جلوہ گر، رہزن اورصحرا نشیں، وہ یکایک سرزمینِ حجاز سے آگے قیصر وکسری کے فاتح کیونکر بن گئے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے قرآنِ پاک کی تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت سے ۔ اقبال مرحوم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی فرمان اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فتوحات کی روشنی میں کس قدر حقیقت پسندانہ بات کہی ہے۔ ؎ وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر یہاں قرآنِ مجید کے فضائل وبرکات اور اعجازات کی تفصیل مقصود نہیں ،نہ ہی یہ ہمارا موضوع ہے، بس یہ بتلانا مقصود تھا کہ اس پُر عظمت کتاب سے جو وابستہ ہوا وہ سرخرو ہوا اور جس نے اس سے رخ موڑا وہ ذلیل ورسوا ہوا۔ یہی حبل اللہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے مابین مضبوط واسطہ ہے، آدم علیہ السلام کو اس دنیا میں بھیجتے ہوئے یہ پیغام دیا تھا: ﴿فَاِمَّا یَاْ تِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی﴾ الآیۃ(طٰہٰ:۱۲۳) ’’اگر میری طرف سے تمھارے پاس ہدایت آئے، جو کوئی میری ہدایت پر چلے گا نہ وہ گمراہ ہو گا،نہ بدنصیب ہو گا۔‘‘ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَالَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ إنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابِ اللّٰہ ‘‘ (مسلم:رقم۲۹۵۰) ’’میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہو، جس کے ساتھ تم وابستہ رہو گے تو تم ہر گز گمراہ نہیں ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘