کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 25
یَؤُمُّ القَوْمَ أقرَؤُھُمْ لِکِتَابِ اللّٰہِ(مسلم:رقم۱۵۳۲) ’’کہ لوگوں کو نماز وہ پڑھائے جو ان میں سے قرآن کا سب سے بڑا قاری ہو۔‘‘ بلکہ جب جہادکے دوران میں یا کسی وبا یا سانحہ یا حادثہ کی صورت میں اموات کثرت سے ہوں تو دو چار میتوں کو ایک ہی قبر میں بھی دفن کیا جا سکتا ہے اور دفن کرنے میں سب سے پہلے لحد میں بجانبِ قبلہ اسے رکھا جائے گا جو قرآن کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو گا۔ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ احد میں شہدا کو دفن کرنے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ قبر کو گہرا اور اچھا بناؤ اور ایک قبر میں دو دو، تین تین کو دفن کرو۔ ہم نے عرض کیا جناب!سب سے پہلے کسے رکھیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قَدِّمُوْا أکْثَرَ ھُمْ قُرْآناً سب سے پہلے اسے رکھو جو ان میں قرآن کا زیادہ حافظ وقاری ہو۔ (ابوداود:رقم۳۲۱۵،ترمذی:رقم ۱۷۱۳ وصححہ ،النسائی ،رقم ۲۰۱۷،۲۰۱۸، وغیرہ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نافع بن عبد الحارث الخزاعی رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ کا منتظم بنایا تھا، ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ،تو حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر وادی عُسفان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا، انھوں نے حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ یہاں آگئے ہیں مکہ مکرمہ کا انتظام کس کے سپرد کر کے آئے ہو، انھوں نے کہا: ابن ابزیٰ کے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن ابزیٰ کون ہے؟ حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ ہمارے غلاموں میں سے ایک غلام ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اہلِ مکہ پر تم نے غلام کو منتظم بنا دیا ،تو حضرت نافع نے کہا :إنَّہٗ قَارِی ئٌ لِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَإنَّہٗ عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ۔’’کہ وہ قرآن کا قاری اورعلمِ وراثت کو جانتا ہے ۔ ‘‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : إنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ أقْوَاماً وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ۔ (مسلم: ص۲۷۲ج۱رقم:۱۸۹۷ ) ’’کہ اللہ تعالیٰ اس قرآن کی برکت سے قوموں کو سر بلندی نصیب کرے گا