کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 23
اشتقاق میں ان کا رجحان مختلف ہے۔ قرآن میں آیات اور سورتوں کی جمع وترتیب بھی مسلمہ امر ہے۔ قرآن نجماً نجماً نازل ہوا ترتیب نزولی کے بغیر ہر ایک آیت کو اس کے محل پر ایسا جمع کیا گیا ہے کہ ان میں باہم معنوی مناسبت پر عقل وخرد جھوم جھوم جاتی ہے ۔ آیات ہی نہیں سورتوں کی ترتیب وجمع میں بھی یہی نوعیت ہے۔ ﴿وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ ﴾:’’ قسم ہے قرآنِ مجید کی۔‘‘ مجید کے معنی صاحبِ کرم وفضل ،بزرگ ،برتر اور باعظمت کے ہیں،یہ لفظ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم مبارک ہے، اور قرآنِ مجید میں دو مقامات پر اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُo ذُوالْعَرْشِ الْمَجِیْدُo ﴾ (البروج: ۱۴،۱۵) ’’اور وہی (گنا ہگاروں کو) بخشے والا اور (نیکوں سے) محبت کرنے والا ہے۔ عرش کا مالک بڑی شان والا ہے۔‘‘[1] اور ایک دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں، جب انھیں اور ان کی بیوی کو بڑھاپے میں بیٹے کی بشارت دی گئی اور ان کی اہلیہ حضرت سارہ علیہا السلام نے اس پر تعجب کا اظہار کیا ،کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت تقریباً سو سال اور حضرت سارہ علیہا السلام کی ۹۰ سال ہو چکی تھی۔ تو فرشتوں نے کہا: ﴿اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ وَرَحْمَتُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِط اِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌo﴾(ھود :۷۲،۷۳) ’’کیا تم اللہ کی قدرت پر تعجب کرتی ہو،اے گھروالو !تم پر اللہ کی رحمت اور برکت ہو، بے شک وہ تعریف کیا گیا بزرگ ہے۔‘‘ قرآنِ پاک کے بارے میں بھی یہ لفظ دو ہی بار استعمال ہوا ہے، ایک اسی مقام
[1] عاصم کے علاوہ کوفیوں کے نزدیک ’’مجید‘‘ یہاں عرش کی صفت ہے۔فتح القدیر (ص۴۰۲ج۵)۔