کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 22
الملک نے’’البرھان‘‘ میں قرآنِ مجید کے پچپن(۵۵) نام ذکر کیے ہیں۔جیسے التنزیل، الکریم، المجید، الحکیم وغیرہ ،مگر یہ قرآنِ مجید کی صفات ہیں۔ بطورِ علَم چار نام ہی قرآنِ مجید میں استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ امام ابنِ جریر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ ’’القرآن‘‘کے اشتقاق کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قرآن، رجحان اور کفران کے وزن پر قَرَأ یَقْرَاُ کا مصد قِرَائَۃٌ اور قُرَآنٌ ہے، اور پڑھنے کے معنی میں ہے،گویا یہ کتاب پڑھنے کے لیے نازل ہوئی ہے اور قیامت تک پڑھی جائے گی، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی یہی کتاب قرآنِ مجید ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’القرآن‘‘ مہموز یعنی قرا ء ت سے مشتق نہیں بلکہ یہ نام اور علَم ہے،جیسے تورات اور انجیل پہلی کتابوں کا عَلم ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: میں نے اسماعیل بن قسطنطین سے قرآن پڑھا وہ فرماتے تھے: قرآن، قراء ت سے مشتق نہیں اگر قراء ت سے مشتق ہوتا تو جو کچھ پڑھا جاتا وہی قرآن کہلاتا، بلکہ ’’قرآن‘‘ نام ہے (تاریخ بغداد:ص۶۲ج۲)علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (الاتقان :ص ۵۱ج۱) امام اشعری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: یہ’’قرن‘‘ سے مشتق ہے ۔عرب جب ایک کو دوسری چیز سے ملاتے تو کہتے قرنت الشی ء بالشی ء قرآن میں بھی سورتیں ، آیات ایک دوسری سے ملائی اور جوڑی گئی ہیں۔ جو جدا جدا نازل ہوئی تھیں۔علامہ زجاج رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ قرآن مہموز ہے۔ قرأ سے مشتق ہے جیسے الغفران اور فعلان ہے اور اس کے معنی جمع کرنے کے ہیں، عرب کہتے تھے قرأ الماء فی الحوض پانی حوض میں جمع ہو گیا۔ اور ’’قرآن ‘‘ اس معنی میں کہ اس میں باہم سورتوں کو جمع کیا گیا ہے۔ علامہ راغب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہر مجموعہ کو اور مجموعہ کلام کو قرآن نہیں کہا جاتا،بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ اس میں تمام کتبِ سابقہ کے ثمرات ومقاصد کو جمع کر دیا گیا۔ یا اس لیے کہ اس میں تمام علوم جمع ہیں، (الاتقان) گویا علامہ زجاج اور امام اشعری قرآن کو جمع کے معنی میں لیتے ہیں البتہ اس کے