کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 21
نیکیاں ملتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ﴿الٓمّٓ﴾، جو غیر معقول المعنی حروف ہیں، کی مثال دے کر اس وہم کی جڑ کاٹ دی کہ بغیر سمجھ کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآنِ پاک کی تلاوت، اس کی تعلیم اوراس پر عمل تینوں مطلوب ومقصودہیں۔
اس سورۃ قٓ میں ’’ قٓ‘‘ سے مراد اور اس کے معنی میں وہ تمام مفہومات اور توجیہات ہیں جو مختصراً ہم پہلے عرض کر چکے ہیں، کہ یہ حرف دیگر حروفِ مقطعات کی طرح تحدی کے طور پر بھی ہو سکتا ہے ، یہ اللہ کی صفت کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وہی قیوم، قادر، قاہر، قریب اور قاضی الامور ہے۔سورت کا نام تو یہ ہے ہی، اور یہ بھی کہ حقیقتاً تو اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول منقول ہے کہ اس سے مراد ایک پہاڑ ہے، جو زمین کو گھیرے ہوئے ہے، جس کا نام قاف ہے، مگر حافظ ابن کثیر نے اسے اسرائیلی خرافات قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی سند درست نہیں۔
’’و‘‘حرف قسم ہے اور ’’القرآن‘‘ علم یعنی نام ہے۔ جیسے ’’تورات‘‘ اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اور ’’انجیل‘‘ اس کتاب کا نام ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اور ’’زبور‘‘ حضرت داود علیہ السلام پر نازل کی گئی۔ ’’القرآن‘‘ نام خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تقریباً ارسٹھ (۶۸)مقامات پر اسی نام سے یاد کیا ہے۔ ۵۰ بار بطور معرفہ یعنی الف لام کے ساتھ اور ۱۲ بار بغیر معرفہ کے آیا ہے۔
(المعجم المفہرس لألفاظ القرآن الکریم :ص۵۳۹،۵۴۰)
’’القرآن‘‘ کے علاوہ اس کے نام الفرقان، الذکر ،الکتاب ، قرآنِ مجید ہی میں اسمِ علم کے طور پر آئے ہیں۔’’الفرقان‘‘ کے لیے دیکھئے آل عمران(آیت:۴) الفرقان(ا) ۔ ’’الذکر‘‘ کے لیے دیکھئے الحجر(۹) النحل (۴۴) ۔الکتاب :البقرۃ (۱) الکھف (۱) بلکہ یہ اسم تو متعدد مقامات پر آیا ہے۔ امام ابنِ جریر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اس کے یہی چار نام ہے۔(جامع البیان:ص۴۱،۴۲ج۱) علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الاتقان(ص۵۱ج۱) میں ذکر کیا ہے کہ علامہ ابو المعالی عزیزی بن عبد