کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 20
پر ایمان رکھتے ہیں۔ آمنا بہ کل من عند ربنا۔ امام رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ عبادات تین قسم کی ہیں:(۱) عباد تِ قلبی(۲) عبادتِ لسانی(۳) عباد تِ جسمانی۔ اور ان تمام عبادات میں بعض وہ ہیں جو معقول المعنی ہیں اور بعض وہ ہیں جن کی تعبیر عقل وفکر سے بالاتر ہے۔ مثلاً عبادتِ جسمانی میں ایک حج بھی ہے ۔ لیکن رمی جمار اور صفاو مروہ کے مابین سعی کی کوئی عقلی توجیہ نہیں، حاجی بس اللہ کا بندہ ہے اور حق بندگی ادا کر رہا ہے۔ عبادتِ قلبی میں توحید، رسالت اور قیامت سب کی عقلی توجیحات اور ان کی صداقت ایک حقیقتِ ثابتہ ہے، مگر پل صراط جو تلوار سے تیز اور بال سے باریک ہوگی، معقول المعنی نہیں۔ ایک عرصہ تک تو وزنِ اعمال بھی غیر معقول المعنی تھا اور ہم یہ سب تسلیم کرتے اور ان پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی طرح عبادتِ لسانی میں یہ حروفِ تہجی اور یہ حروفِ مقطعات ہیں،جن کے معنی معلوم نہیں، یہ حروف اسی طرح پڑھنا مطلوب ہیں اور باعث أجرو ثواب ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأ حَرْفاً مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أمْثَالھَا لَا أقُوْلُ (الٓمّٓ) حَرْفٌ وَلٰکِنْ ألِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ (ترمذی :رقم۲۹۱۰) ’’جو اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھتا ہے اسے ایک نیکی ملتی ہے اورایک نیکی کا دس گنا درجہ وثواب ہے میں نہیں کہتا ﴿الٓمّٓ﴾ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ اور اسی سے اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے کہ قرآن پڑھنے کا تبھی فائدہ ہے جب اس کے معانی ومطالب سمجھ کر پڑھا جائے، حالانکہ کتنے ہیں جو اس کے مطالب ومعانی سے واقف ہیں ،مگر اس سے مستفید نہیں ہوتے،بلکہ وہ ﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْراً﴾کا مصداق ہیں، ایمان ویقین ہی سے پڑھا جائے تو اس کا فائدہ ہے ، متقین ہی کے لئے یہ باعثِ ہدایت ہے۔ اور ایمان سے جو اس کی تلاوت کرتا ہے اسے بھی ہر حرف کے بدلے دس