کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 199
نیت سے کرتے ہیں اللہ ان پر راضی اور وہ اللہ پر راضی۔‘‘ اسی طرح اُمت کے ائمۂ ہدی اور ان صلحاء کا تذکرہ اور تاریخ کے سبق آموز واقعات بھی ایمان کو جلا بخشنے اور نصیحت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْنَ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ (الا علان بالتوبیخ :ص۶۱ وغیرہ )’’ کہ صالحین کے ذکر پراللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔‘‘حافظ ابنِ عبد البر نے یہی قول امام سفیان ثوری کی طرف منسوب کیا ہے۔ (جامع بیان العلم :ص۱۶۲ج۲)
بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اللہ کے ذکر سے رضوان نازل ہوتی ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو تو محبت نازل ہوتی ہے اور جب صالحین کا ذکر ہو تو رحمت نازل ہوتی ہے۔ (الاعلان :ص ۵۴)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے سلف کی ایک جماعت نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ ’’کہ ذکر اللہ سے دلوں کے اطمینان ملتا ہے۔‘‘سے مراد صحابۂ کرام کا تذکرہ واحوال ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے الدرالمنثور (ص ۵۸ج۴) میں امام مجاہد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کا ذکر مراد ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ علماے کرام کی حکایات اور ان کے محاسن کا تذکرہ میرے نزدیک بہت سے فقہی مسائل سے بہتر ہے۔(الاعلان ، الجامع) اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پہلے انبیاے کرام اور ان کی امتوں کے واقعات کو باعثِ عبرت وموعظت قرار دیا ہے۔ (یوسف:۱۱۱) اور انبیاء علیہم السلام کے تذکرہ کو دل کی مضبوطی اور ثابت قدم رہنے کا باعث بتلایا ہے۔(ھود:۱۲۰) اسی بنا پر بعض نے فرمایا ہے کہ حکایات، اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے ،جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں کو پختہ کرتے ہیں،بلکہ تاریخ کے ان واقعات وحکایات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات بھی ہیں، اور صحبتِ صالحین سے محرومی کا مداوا بھی ہے، بشرطیکہ وہ صحت سے ثابت ہوں، اس حوالے سے وضعی اور بناوٹی قصے اور داستانیں الٹا ایمان ویقین کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صالحین کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اگر یہ صحبت میسر نہ ہو تو ان کے عملی تذکرے اور