کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 197
رحمان سے ڈرے۔‘‘
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا :﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشَاہَا ﴾ (النازعات:۴۵) آپ تو صرف اسے ڈرانے والے ہیں جو اس (قیامت ) سے خوف کرے۔‘‘یہاں یہ بات پیشِ نگاہ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام کے لیے نذیر تھے، جیسا کہ فرمایا:
﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہِ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْراً ﴾ ( الفرقان :۱)
’’بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان کونازل کیا تا کہ وہ تمام جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔‘‘
بلکہ ابتدائی حکم بھی عام تھا ﴿ یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَأَنذِرْ ﴾ ( المدثر: ۱،۲) ’’اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے،اٹھو اور خبر دار کرو۔ ‘‘اس انذار میں سبھی شامل ہیں اور مؤمن اس سے مستفید ہوتے ہیں،جبکہ وہ انذار جس میں عذاب اور نافرمانی کے نتیجہ میں سزا کا ذکر ہے تو یہ کفار کے لیے خاص ہے، جیسے فرمایا :﴿ إِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہِ قَوْماً لُّدّاً﴾ ( مریم :۹۷) ’’بے شک ہم نے اس کلام کو آسان کر کے آپ کی زبان پر اس لیے نازل کیا کہ آپ پرہیز گا روں کو خوشخبری دیں اور ہٹ دھرموں کو ڈرائیں۔‘‘یا جیسے فرمایا:﴿لِتُنْذِرَ بِہِ وَذِکْرَی لِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾(الأعراف: ۲) ’’تاکہ آپ اس قرآن کے ذریعے سے ڈرائیں اور مؤمنوں کو نصیحت کریں۔ ‘‘گویا مومنوں کے لیے یہ بشارت اور نصیحت ہے اور کافروں کو خبردار کرنے کا ذریعہ ہے۔ اور جن آیات میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے انذار کا ذکر ہے تو یہ ایک حقیقتِ واقعی کا اظہار ہے۔قرآن مجید کی ابتدا ہی میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ﴿ذٰلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ ’’یہ ہے وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں، متقین کے لیے یہ ہدایت ہے ۔‘‘ ظاہر ہے کہ جو پرہیز ہی نہیں کرتا اس کے لیے کوئی نسخۂ شافی شفا بخش نہیں ہو سکتا، لہٰذا جواللہ سے اوراللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں وہی اس سے فیضیاب ہوتے ہیں، انھی کو آپ قرآنِ مجید سے