کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 196
’’میں تو تمھیں صرف نیکی کی راہ بتلاتا ہوں:
رہا نیک بنا دینا تو یہ میرے اختیار میں نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت دینے پر قادر ہے۔ ایک اور جگہ ارشادفرمایا:
﴿ أَفَأَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوْا مُؤْمِنِیْنَ﴾( یونس:۹۹)
’’ کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے تا کہ وہ مومن ہو جائیں‘‘
یہاں جیسے آپ کے بارے میں وضاحت ہے کہ آپ کو کوئی داروغہ نہیں بنایا کہ کسی کو بالجبر ایمان کا کہیں،بلکہ آپ کی ذمہ داری نصیحت کی ہے اور وہ آپ بتمام ادا کر رہے ہیں۔ علاوۂ ازیں اس میں کفار کو بھی خبردار کیا گیا ہے کہ جہاں تلک معاملہ حجت ودلیل سے بات سمجھانے کا ہے وہ تو ہمارے نبی نے یہ ذمہ داری پوری کر دی ان کا کام زبردستی مؤمن بنانا نہیں، اگر بالجبر ایمان دار بنانا مقصود ہوتا تو اس کے لیے نبی کی ضرورت ہی کیا تھی یہ کام مجھ (اللہ) سے بہتر طور پر کون کر سکتا ہے؟ اگر تم نہیں مانتے تو نہ مانو ہم خود تم سے نمٹ لیں گے۔ ﴿ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ﴾( الرعد:۴۰)’’آپ بس ان تک بات پہنچائیں ہم خود حساب لے لیں گے۔‘‘
﴿فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ ﴾ جو وعید سے ڈرتا ہے آپ اسے قرآن سے ڈرائیں، سمجھائیں۔ ’’وعید‘‘ سے عذاب مراد ہے کہ جواللہ کے عذاب سے ڈرتا ہے آپ اسے نصیحت کریں،جیسے ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿إِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالغَیْبِ ﴾( فاطر: ۱۸)
’’آپ صرف ان کو ڈرائیں ،متنبہ کریں جو بِن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔‘‘
جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہے وہی راہِ راست پر آئیں گے۔جیسے ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰن بِالْغَیْبِ ﴾( یٰسٓ:۱۱)
’’آپ اسی کو خبردار کر سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بِن دیکھے