کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 194
جائیں گے پکارنے والے کی طرف اور کہیں گے یہ دن بڑا مشکل ہے۔‘‘ ان آیات میں ظاہر ہے کہ قبروں سے نکل کر میدانِ محشر میں جلدی اور تیزی سے جانے کا ذکرہے،مگر سورۃ ق کی آیت سے بعض نے قبروں سے جلدی نکلنے کا مفہوم بھی لیا ہے کہ وہ قبروں سے جلد نکلیں گے، قبروں سے نکلنے میں دیر نہیں ہو گی، جلد ی سے نکلیں گے اور تیز تیز میدانِ محشر کی طرف چل پڑیں گے۔ ﴿ذٰلِکَ حَشْرٌ ﴾ یہ حشر ہمارے لیے آسان ہے۔ یہ ان کی تردید ہے جو اسے ناممکن اور بعید ازعقل سمجھتے تھے،کہ تم اگرچہ اسے مشکل سمجھتے ہو ،مگر ہمارے نزدیک یہ سارا کام چٹکی میں ہو جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے قبر سے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں گے۔ قبروں سے سبھی ننگے بدن، بے ختنہ اٹھیں گے۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔ (بخاری:۳۳۴۹)پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لباس پہنایا جائے گا۔ (ابن ابی شیبہ: ص۱۱۷ج۱۴) ہر انسان اسی حالت میں اٹھا یا جائے گا جس حالت میں وہ مرا ہے ، اگر کوئی راہِ جہاد میں زخمی ہو گا تو قیامت کے روزاسی حالت میں آئے گاکہ خون بہہ رہا ہو گا۔ اس کا رنگ خون کا ہو گا مگر خوشبو مشک کی آرہی ہوگی۔ (بخاری) ایک صحابی رضی اللہ عنہ احرام کی حالت میں اونٹنی سے گر کر جاں بحق ہو گئے،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بیری کے پتوں کے پانی سے غسل دو۔ انھیں کپڑوں میں دفن کرو،نہ اسے خوشبو لگاؤ نہ ہی اس کا سر ڈھانپو قیامت کے دن یہ تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا۔(بخاری رقم:۱۸۵۱) اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رضا کا کام کرتے ہوئے موت نصیب فرمائیں۔(آمین)