کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 193
﴿إِنَّا نَحْنُ نُحْیِیْ وَنُمِیْتُُ﴾ ہم ہی زندہ کرنے اور مارنے والے ہیں، نہ زندہ کرنے میں کسی کا ہاتھ ہے نہ مارنے میں، بلکہ شکمِ مادر سے جس طرح اندامِ نہانی کے راستے انسان کا خروج وظہور ہم کرتے ہیں، بالکل زمین سے اس کا خروج بھی اسی طرح ہو گا۔ یہ سارا نظام ہمارے ہاتھ میں ہے، اور بالآخر ہمارے ہی پاس انسان نے لوٹنا اور پلٹنا ہے، عدالت ہماری ہوگی اور فیصلے بھی ہمارے ہوں گے۔جب زندگی وموت میں کوئی ہمارا شریک نہیں تو ہمارے فیصلوں میں بھی کوئی شریک نہیں ،بلکہ وہاں وہی بات کرے گا جسے ہم اجازت دیں گے، لہٰذا کسی کی دخل اندازی کا سوال ہی کیونکر پیدا ہو سکتا ہے۔ ﴿یَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ ﴾ نفخۂ صور کے نتیجہ میں اب قبروں سے نکلنے کی کیفیت کا بیان ہے کہ اس روز زمین پھٹے گی تو وہ قبروں سے نکل کر دوڑتے ہوئے جا رہے ہوں گے، جیسے سورۃ المعارج میں ہے: ﴿یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعاً کَأَنَّہُمْ إِلٰی نُصُبٍ یُوفِضُوْنَ ﴾( المعارج:۴۳) ’’اس روز قبروں سے نکل کر دوڑیں گے جیسے وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں۔‘‘ اسی طرح ایک اور مقام پر ہے: ﴿وَنُفِخَ فِیْ الصُّْوْرِ فَإِذَا ہُمْ مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ ﴾ (یٰس:۵۱) ’’اور صور میں پھونکا جائے گا تو وہ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑیں گے۔ ‘‘ اسی طرح فرمایا: ﴿یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْأَجْدَاثِ کَأَنَّہُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌo مُّہْطِعِیْنَ إِلٰی الدَّاعِ یَقُوْلُ الْکَافِرُوْنَ ہَذَا یَوْمٌ عَسِرٌ ﴾( القمر: ۷،۸) ’’وہ اپنی قبروں سے نکلیں گے جیسے بکھری ہوئی ٹڈیاں ہوں، دوڑتے