کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 192
آیات میں ہے، یعنی یہ تو انکار کرتے ہیں،مگر آپ میری بات سنیں کہ یہ ایک شدنی حقیقت ہے، اس دن منادی کرنے والا قریب سے ندا کرے گا، جو شخص جہاں کہیں ہو گا وہاں اسے اس منادی کی آواز ایسے سنائی دے گی کہ کوئی قریب سے آواز دے رہا ہے، مشرق ومغرب، شمال وجنوب ہر جانب پورے کرۂ ارض میں پڑے ہوئے انسانوں کو یہ آواز یکساں سنائی دے گی، یوں نہیں کہ کسی کو آہستہ اور کسی کو اونچی سنائی دے، یہ آوازالصیحۃ بڑی بلند چیخ اور چنگھاڑ ہو گی۔ اسی کو دوسری جگہ ﴿الصَّاخَّۃُ ﴾کہا گیا ہے۔(عبس : ۳۳)یعنی سخت اور کرخت آواز۔ اور ایک مقام پر ﴿زَجْرَۃٌ﴾ کہا گیا ہے ۔(النازعات: ۱۳) ڈانٹ ، جو قرن میں پھونکی جائے گی۔ اس سے معنوی اعتبار سے بھی ان آثار کی نفی اور عدمِ صحت معلوم ہوتی ہے جن میں آیا ہے کہ فرشتہ بیت المقدس کے صخرہ پر کھڑا ہو کر کہے گا: یَا أَیَّتُھَا الْعِظَامُ النَّخِرَۃُ وَالْجُلُوْدُ الْمُتَمَزَّقَۃُ، وَالْأَ شْعَارُ الْمُتَقَطَّعَۃُ إِنَّ اللّٰہَ یَأْ مُرُکَ أَنْ تَجْتَمِعِیْ لِفَصْلِ الْحِسَابِ۔ ( الدرالمنثور :ص۱۱۰ج۶وغیرہ) ’’اے گلی سڑی ہڈیو، اور ریزہ ریزہ ہونے والے چمڑو، اور بکھرنے والے بالو، اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ حساب کے لیے جمع ہو جاؤ۔‘‘ اسی قسم کا ایک قول کعب الاحبار سے بھی ہے،مگر ان کی اسانید محلِ نظر ہیں۔ یہ﴿الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ ﴾ آواز ٹھیک طور پر سنیں گے،، یعنی یہ آواز یقینی طور پر سنیں گے اور انھیں قیامت کے ہونے پر کوئی اشتباہ نہیں رہے گا، جس کے بارے میں وہ پہلے شک میں مبتلا تھے اب اسے ایک حقیقت پائیں گے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے وہ حق ،یعنی قیامت کی آواز سنیں گے جو ایک امرِ حق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آواز سنیں گے جس کے ساتھ قیامت ملی ہوئی ہو گی: أیْ مُقْتَرَ نَۃٌ بِالْحَق یعنی وہ نفخہ سن لیا بس اب آئی قیامت ۔(رازی) اور یہ ہے زمین سے نکلنے کا دن،جہاں جہاں انسان زمین میں دفن ہوں گے اور جہاں جہاں ان کے اعضاء واجزا ہوں گے وہیں سے زمین سے باہر نکل آئیں گے۔