کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 19
کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کلامِ عرب میں سیاقِ کلام اس معنی پر دلالت کرتا ہے، مگر قرآنِ مجید میں یہ حروفِ مقطعات اس سیاق میں وارد نہیں ہوئے۔
بہت سے مفسرین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ جیسے سورۃ طٰہٰ، سورۃ یٰسٓ، سورۃ قٓ، سورۃ صٓ، سورۃ نٓ، سورۃ الٓمّٓ السجدۃ وغیرہ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ا جمعہ کے روز صبح کی نماز میں﴿الٓمّٓ، السَّجْدَۃُ﴾ اور﴿ ہَلْ أَتَی عَلَی الْإِنسَانِ ﴾ پڑھتے تھے،(بخاری : رقم۸۹۱ ،مسلم:رقم ۲۰۳۴) لیکن یہ بات تو بین ہے کہ بہت سی سورتیں ان حروف مقطعات کے ناموں سے مشہور نہیں ہوئیں اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سورتوں کے یہ نام تو قیفی ہیں۔ (الاتقان :ص ۵۲ج۱) ۔بہر نوع یہ حروف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نام پر دلالت کرتے ہوں یا یہ سورتوں کے نام ہوں یا یہ تحدی اور اعجاز کے طور پر ہوں اس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ عربوں کے ہاں یہ اسلوبِ کلام بیگانہ اور اجنبی نہ تھا۔ اگر یہ ان کے مزاج کے مطابق نہ ہوتا تو وہ ضرو ر اس پر معترض ہوتے۔ قرآن پر معاندین نے بہت سے اعتراضات کیے، قرآنِ پاک ہی میں ان کا جواب بھی دیا گیا، مگر ان حروف کے بارے میں ان کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اسلوبِ بیان ان کے ہاں متعارف تھا۔ رہی یہ بات کہ ان کے معانی ومطالب کیا ہیں، یقینا ان کے معانی اللہ تعالیٰ کے ہاں تو متعین ہیں، لیکن رسول اللہا سے کوئی چیز اس بارے میں ثابت نہیں، نہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ آپ ا سے اس بارے میں دریافت کریں ۔ اگر ان حروف کے معانی معلوم کرنے میں ہی ہدایت کا انحصار ہوتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس بارے میں قطعاًخاموش نہ رہتے ، بلکہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق،عثمان غنی، علی مرتضی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے کہ ان حروف کا علم اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔ یہی قول امام عامر شعبی، سفیان ثوری، ربیع بن خثیم ، ابو حاتم ابن حبان رحمہم اللہ کا ہے۔ (ابن کثیر:ص۳۸ ج۱) بلکہ اکثر متأخرین کا یہی قول ہے کہ ان حروف کی تحقیق میں سر گرداں ہونے کی ضرورت نہیں ۔بس ہمیں یہی کہنا چاہیے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ہم اس