کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 18
یَدَیْہِ﴾ ﴿الٓمّٓصٓo کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ۔﴾﴿الٓمّٓo تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَارَیْبَ فِیْہِ مِنْ رََّبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾﴿حٰمٓo تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِo﴾ اور دیگر آیات اس پر دلالت کرتی ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر:ص۶۴ج۱) بعض حضرات نے کہا ہے کہ ان حروفِ مقطعات سے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات مراد ہیں، اور ہر حرف اللہ تعالیٰ کے نام اور صفت پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً الٓمّٓمیں الف سے اللہ ، لام سے لطیف، اور میم سے مجید مراد ہے۔ کلامِ عرب میں اس کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً شاعر کا قول ہے: قُلْنَا قِفِیْ لَنَا فَقَالَتْ: قٓ یا یوں کہ: قُلْتُ لَھَا قِفِِیْ فَقَالَتْ: قٓ میں نے اسے کہا ٹھہر جاؤ ،تو اس نے کہا قٓیعنی ’’وقفت ‘‘میں ٹھہر گئی۔ یا جیسے کسی شاعر نے کہا: بِالخَیْرِ خَیْرَاتٌ وَاِنْ شَرًّا فَا وَلَا اُرِیْدُ الشَرَّ اِلاَّ تَا۔ یہا ’’فا ‘‘سے مراد فشر ہے اور ’’تا‘‘ سے مراد تشاء ہے۔’’ یعنی بھلائی سے بہت سی بھلائیاں ملیں گی اور اگر برائی کرو گے تو اس کا بدلہ برا ہو گا۔ اور میں شر کا ارادہ تبھی کرتا ہوں جب تم شر چاہتے ہو۔‘‘ گویا عربوں میں یہ دستور ہے کہ وہ کلمے کا ایک حرف بولتے ہیں جو اس کلمہ پر دلالت کرتا ہے ۔یہ طرز ودستور محدثین نے بھی اختیار کیا ہے ۔جیسے ’’ثنا‘‘سے حدثنا، ’’أنا‘‘سے أخبرنا ، اور ’’ح‘‘سے تحویل مراد لیتے ہیں۔ اور کتب احادیث کی علامات اسی دستور پر ہیں۔ ’’خ‘‘سے بخاری۔’’م‘‘سے مسلم ،’’د‘‘سے ابو داود، ’’ت‘‘سے ترمذی، ’’س‘‘ سے نسائی،’’ق‘‘ سے ابن ماجہ قزوینی،حتی کہ سر کاری القاب، سرکاری عہدوں، تجارتی فرموں اور کمپنیوں میں بھی یہ دستور عام ہو گیا ہے۔ مگر حافظ ابن