کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 17
﴿قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ﴾(ا)
’’ قٓ، قسم ہے قرآنِ مجید کی۔‘‘
قٓ حروف مقطعات میں سے ہے، انتیس ۲۹سورتوں کا آغاز ان حروف سے ہوتا ہے ۔جنھیں علیحدہ علیحدہ اورجداجدا حیثیت سے پڑھا جاتا ہے، جیسے صٓ،نٓ،حٰمٓ،طٰہٰ، طٰسٓ، الٓمّٓ ،الٓرٰ،الٓمّٓرٰ، الٓمّٓصٓ ،کٓھٰیٰعٓصٓ،حٰمٓ عٓسٓقٓ وغیرہ حروف ہیں۔سورتوں کے آغاز میں ان حروف کے بارے میں اہلِ علم کی مختلف آرا ہیں، بعض نے کہا ہے: ان سے قرآن کے اعجاز کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ عربی لفظ ایک حرف سے لیکر پانچ حروف سے بنتا ہے ۔ کچھ وہ الفاظ ہیں جو صرف ایک حرفی ہیں، کچھ دوحرفی،کچھ ثلاثی ، کچھ رباعی اور کچھ خماسی ہیں۔ قرآنِ مجید میں بھی یہ حروف اسی اسلوب میں ہیں، کچھ ایک حرفی ہیں،جیسے صٓ، نٓ، قٓ۔ کچھ دو حرفی ہیں جیسے حٰمٓ، طٰہٰ، یٰسٓ، طٰسٓ۔ کچھ تین حرفی ہیں، جسے الٓمّٓ ،الٓرٰکچھ چار حرفی ہیں جیسے الٓمّٓر، الٓمّٓصٓ اور کچھ پانچ حرفی ہیں جیسے حٰمٓ عٓسٓقٓ، کٓھٰیٰعٓصٓ اور یہ قرآن کے اعجاز پر دلالت کرتے ہیں کہ عربی کلام انھی پانچ نوعیت کے الفاظ پر مشتمل ہے،قرآنِ پاک بھی انھی حروف پر مشتمل ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ عرب کوچیلنج ہے کہ اے اہلِ عرب! تمھیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز ہے، قرآن کو کلامِ الہٰی تسلیم نہیں کرتے ہو، اسے شاعر کا کلام سمجھتے ہو، تو اٹھو تم قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ،تمھاری تمام تر لن ترانیوں کے باوجود ہم واشگاف الفاظ میں تمھیں خبردار کرتے ہیں کہ تم کیا، سب جن وانس مل کر بھی قرآن کی ایک سورت جیسی کوئی سورت نہیں بنا سکتے ۔ یہ رائے امام رازی ، امام مبرد ، امام الفراء، علامہ زمخشری، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،علامہ المزی رحمہم اللہ کی ہے۔ اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان ہے، فرماتے ہیں :کہ یہی وجہ ہے کہ عموماً ان حروف کے بعد قرآنِ مجید کی عظمت کا ذکر ہے۔ جیسے: ﴿الٓمّٓoذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ۔﴾﴿الٓمّٓo اللّٰہُ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُoنَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًالِّمَابَیْنَ