کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 16
سورۃ یوسف کی تعلیم دینا پسند نہیں کیا۔‘‘(کتاب الردعلی الاخنائی:ص۱۱۲) قاضی عیاض رحمہ اللہ کا یہ کلام الشفا ( ص۲۱۷ج۲) میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جس سے اس بارے میں سلف کے احساسات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ہماری گنگاالٹی بہتی ہے۔ اس سورت کی اہمیت اس روایت سے بھی ہوتی ہے، جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں یہی سورت﴿قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ﴾ تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم :۱۰۲۷)اور سنن سعید بن منصور میں ہے یہ سورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی پہلی رکعت میں پڑھتے تھے۔ (الدرالمنثور :ص ۱۰۱ج۶) جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس سورت میں ایمان کے بنیادی اصولوں کا بیان ہے۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عرب تھے اور قرآن مجید جو عربی مبین میں نازل ہوا، ان کی مادری زبان تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز، عیدین اور خطبۂ جمعہ میں اس سورت کی تلاوت فرماتے تاکہ بنیادی عقائد مستحکم ہوں،توحید ورسالت، حساب کتاب اور جزاوسزا کا تصور مستحضر رہے۔ اس کے علاوہ قیامت کے حوالے سے اس سورت میں چونکہ بتکرار فرمایاگیا ہے کہ ﴿ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُرُوْجِ ، کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ، ذٰلِکَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ﴾ ’’یہ خروج کا دن ہے، اسی طرح قبروں سے نکلنا ہو گا، یہ حشر ونشر ہمارے لیے آسان ہے۔‘‘ توگویا اس میں جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے زیب وزینت اور بن سنور کر نکلنے والوں کے لئے پیغام ہے کہ محشر میں نکلنا بھی یاد رکھو، عید کی خوشی میں فسق وفجور میں مبتلا نہ ہو جاؤتم نے ایک دن میدانِ محشر میں جمع ہونا ہے اور اپنا حساب کتاب چکانا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمارے دلوں میں آخرت کی فکر پیدا کرے، اس سورت سے یہی سبق حاصل کرنے کی توفیق بخشے ۔اپنی رضا کے کام آسان کردے،دنیا اور آخرت میں عزت عطا فرمائے اور ہر قسم کی ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین ارشاد الحق اثری 25/10/06