کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 151
﴿ہَذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیْظٍ ﴾(۳۲)
’’یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا،ہر رجوع کرنے والے، حفاظت کرنے والے کے لیے۔‘‘
جنت اہلِ جنت کے قریب لاکرپیش کش کے انداز میں، ان سے کہا جائے گا اس میں داخل ہو جاؤ ،یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ اہلِ دوزخ کے بارے میں تو فرمایا گیا ہے:﴿اَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ﴾ان کو جہنم میں پھینک دو۔ ان کے بارے میں توفرمایا گیا: ﴿یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِیْ النَّارِ عَلَی وُجُوْہِہِمْ ﴾ (القمر:۴۸) ’’جس دن منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینکے جائیں گے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿یُوْمَ یُدَعُّوْنَ اِلَی نَارِ جَھَنَّمَ دَعَّاً﴾’’ جس دن دھکے دے کر جہنم کی آگ میں گرائے جائیں گے۔‘‘جن کے بارے میں فرمایا جائے گا : اسے پکڑو اور گلے میں طوق ڈالو اور جہنم میں پھینک دو، ستر گز لمبی زنجیروں میں جکڑ کر اسے کھینچو۔‘‘جہنم کی ہولناک سزا میں جائے گا کون؟ انھیں تو گھسیٹ کر اور قیدی بنا کر ہی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ مگر جنت کو اہلِ جنت کے قریب کر کے کہا جائے گا کہ اس میں داخل ہو جاؤ،جنت کا پروانہ ملنے کے بعد بے تابی بڑھے گی تو فرمایا جائے گا یہ ہے جنت! اس میں داخل ہو جاؤ، یہ ہے جس کا انبیاء ورسل کے ذریعے سے تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔
جس طرح پہلے جہنمیوں کی چھ بدخصلتوں کا ذکر کیا، اب یہاں متقین اہلِ جنت کی چار صفاتِ حسنہ کا بیان ہے،جن کی بنا پر انھیں پروانۂ جنت ملے گا۔ چنانچہ ان کا پہلا وصف’’اواب‘‘ یعنی بہت رجوع کرنے والا،بیان ہوا ہے ۔یہ لفظ ’’اوب‘‘ سے ہے جس کے معنی لوٹنا ، رجوع کرنا ہیں۔ جو حیوان اور غیر حیوان کے لیے عام ہے،مگریہ لفظ خاص کر حیوان کے ارادتاً لوٹنے پر بولا جاتا ہے۔ اسی سے’’اواب‘‘مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی جو معاصی کو چھوڑ کراللہ کی طرف رجوع کرنے والاہو۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، شعبی رحمہ اللہ اور