کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 15
کہ ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور دوسال یا ایک سال کچھ ماہ تک ایک ہی تھا، آپ ہر جمعہ کے خطبہ میں سورۃ قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ کی تلاوت کرتے، یعنی اسے موضوعِ سخن بناتے اور اس کی آیات کا وعظ فرماتے اور میں نے آپ کی زبانِ اقدس سے سن سن کر یہ سورت یاد کی۔چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:
لَقَدْ کَانَ تَنُّوْرُنَا وَتَنُّوْرُ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وَاحِداً سَنَتَیْنِ أوْسَنَۃً وَبَعْضَ سَنَۃٍ،وَ مَاأخَذْتُ﴿قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ﴾ إلَّا عَنْ لِسَانِ رَسُوْلِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَؤُھَا کُلَّ یَوْمِ جُمُعَۃٍ عَلَی الْمِنْبَرِ اِذَا خَطَبَ النَّاسَ۔(مسلم :۲۰۱۵وغیرہ)
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سورت کی آپ کے نزدیک کیا اہمیت تھی۔ خطبۂ جمعہ میں اکثر اس کا اہتمام اس لیے تھا کہ یہ سورت توحید ورسالت کے ساتھ ساتھ موت، قیامت،جزاوسزا،حساب کتاب، جنت ودوزخ کے بیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبرو استقامت کی تلقین پر مشتمل ہے۔ مگر آج کل ہمارے خطباے کرام عموماً اس سورت سے غافل ہیں۔سورۃ یوسف پر مشتمل خطبات اور اس کے دروس کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے، اشتہارات چھپتے ہیں ،سامعین کو ان کے سننے کی ترغیب دی جاتی ہے، مگر یہ اہتمام سورۃ قٓ کے لیے نہیں۔آخر ایسا کیوں ہے؟
؎ یہ بات ہے نہ سمجھنے کی نہ سمجھانے کی
جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قاضی عیاض رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ کَرِہَ بَعْضُ السَّلَفِ تَعْلِیْمَ النِّسآئِ سُوْرَۃَ یُوْسُفَ ’’بعض سلف صالحین نے تو عورتوں کو