کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 14
سے پوچھا کہ:مَاکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقرَأُفِیْ الْعِیْدِ۔؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید میں کون سی سورت تلاوت فرماتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: قٓ اور اِقْتَرَبَتْ۔
حضرت حارثہ بن نعمان انصاری رضی اللہ عنہ [1] کی بیٹی حضرت ام ہشام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں
[1] حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ بنونجار سے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے ننھیالی رشتہ تھا، جو سردار عبدالمطلب کے ماموں تھے۔ہجرت کے بعد آپ نے انھی کے ہاں قیام فرمایا تھا۔ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر بدری صحابی تھے۔ اپنی والدہ سے حسنِ سلوک میں بڑے معروف تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دخلت الجنۃ فسمعت قراء ۃ فقلت: من ھذا؟ فقیل: حارثۃ بن النعمان، فقال: کذاکم البر وکان براً بأمہ۔
(احمد :ص ۳۶ج۶واسنادہ صحیح،الاصابۃ:ص۳۱۲ج۱)
’’میں جنت میں داخل ہوا، تو میں نے قرآن مجید پڑھنے کی آواز سنی ، میں نے پوچھا یہ کون پڑھ رہا ہے؟ تو مجھے بتلایا گیا کہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: والدین سے حسن سلوک کا اسی طرح اجر ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ اپنی والدہ سے بڑے حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔‘‘
حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا، آپ کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام بیٹھے تھے ،میں نے انھیں سلام کہا:تھوڑی دیر بعد جب میں واپس آیا تو آپ نے فرمایا: کیا تونے اس شخص کو دیکھا تھا جو میرے پاس بیٹھا تھا؟ میں نے عرض کیا :جی ہاں،آپ نے فرمایا: وہ جبرائیل علیہ السلام تھے،انھوں نے تیرے سلام کا جواب دیا تھا۔(مسند احمد :ص۴۳۳ج۵،طبرانی:ص۲۲۷ج۳واسنادہ صحیح)اسی نوعیت کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام سے باتیں کر رہے تھے، حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ انھیں پہچان نہ سکے ،سمجھا کہ آپ ایک اجنبی آدمی سے گفتگو کر رہے ہیں، تو وہ خاموشی سے گزر گئے کہ میں کہیں خلل کا باعث نہ بنوں، کچھ دیر بعد واپس پلٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس آدمی کو پہچان نہیں سکے جو میرے پاس بیٹھا تھا،انھوں نے عرض کیا، جی نہیں، آپ نے فرمایا: وہ جبرائیل علیہ السلام تھے انھوں نے کہا کہ اگر حارثہ رضی اللہ عنہ سلام کہتے تو میں سلام کا جواب دیتا۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا آپ انھیں پہچانتے ہیں تو انھوں نے کہا: بالکل یہ ان اَسی(۸۰) افراد میں سے ایک ہیں جو غزوۂ حنین میں ثابت قدم رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اور ان کی اولاد کو جنت میں رزق عطا فرمائے گا۔(طبرانی، بزار وغیرہ وإسنادہ حسن، المجمع:ص۳۱۴ ج۹وغیرہ) حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے تو انھوں نے اپنے دروازے تک جانے کے لئے رسی باندھ رکھی تھی، جب کوئی سائل آتا تو اس رسی کو پکڑ کر دروازے پرتشریف لے جاتے اور اپنے ہاتھ سے سائل کی مدد کرتے ، اہلِ خانہ عرض کرتے کہ یہ خدمت ہم سرانجام دیتے ہیں، تو وہ فرماتے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسکین کو بدستِ خوددینا بری موت سے بچاتا ہے۔ (مجمع :ص ۱۱۲ج۳،اصابہ:ص ۳۱۳ج۱)