کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 132
نہیں ہو گا۔‘‘ یہاں بھی ان مشرکوں کے لیے’’عذاب شدید‘‘ کی وعید ہے، یہ ’’شدید‘‘ اس لیے بھی کہ اس میں انقطاع نہیں، جس عذاب میں انقطاع اور توقف ہو اس میں راحت وآرام کی کچھ توقع ہو تی ہے، جس کا مشرک مستحق نہیں۔یہی ایسا ایک گھناؤنا جرم ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے نہ کوئی نیکی قبول ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے مرتکب کے لیے دعا اور اپیل کار گر ہو سکتی ہے،بلکہ شرک کے ساتھ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قیامت کو مانتا ہے تو اس کے ایسے ایمان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ جب اس کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ فلاں تو اللہ کا بڑا محبوب اورچہیتا ہے وہ اللہ سے جو چاہے منوا سکتا ہے تو یہی تصور اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر دلیر کرتا ہے اور قیامت کو تسلیم کر کے بھی اس سے بے خوف ہو جاتاہے۔ علامہ الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ﴿الَّذِیْ جَعَلَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہاً آخَرَ ﴾ ﴿کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍ ﴾سے بدل ہے یا اس پر عطف ہے ۔یعنی’’ کفار‘‘ کی تفصیل وتشریح ہے یا یہ﴿ أَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ﴾پر عطف ہے۔ یعنی پہلے فرمایا کہ اس کو جہنم میں ڈال دو اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بناتا ہے، جہنم میں ڈال کر اسے جہنم کا شدید عذاب پہنچاؤ،گویا مجرم پر فردِ جرم لگی اور جہنم کی سزا سنادی گئی، مگر جب جرائم کی نوعیت بڑ ھتی گئی حتی کہ شرک بھی اس کے نامۂ اعمال میں پایا گیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے غصے سے فرمایا کہ اسے جہنم کے سخت عذاب میں ڈال دو ۔ یہاں بھی ’’فَأَلْقِیَاہٗ ‘‘ تثنیہ استعمال ہوا ہے اور مراد یہ ہے کہ ڈال دو، ڈال دو۔ جیسے کہا جاتا ہے، پھینکو ،پھینکو، جس میں اس کے مردود ہونے کا بھی اشارہ ہے، کہ یہ مشرک اسی کا سزاوار ہے۔ جنت کے جس طرح کئی درجات ہیں، اسی طرح جہنم کے بھی کئی درجات ہیں۔ اس کے سات دروازے ہیں اور سب سے ادنیٰ اور کم تر عذاب والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اسے جہنم کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن سے اس کا دماغ یوں کھولتا اور ابلتا ہوگا جیسے برتن میں گرم پانی ابلتا ہے۔ (بخاری)أعاذ نا اللہ منھا