کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 130
نافرمانی کرتا ہے اور اس کی حدود سے تجاوز کرتا ہے، اسے آگ میں داخل کیا جائے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت آمیز عذاب ہے۔‘‘ حدود سے تجاوز کرنے والا عموماً متکبربن کر ہی ایسا کرتا ہے اس لیے حسبِ حال اسے ذلت آمیز عذاب ہو گا اور ساری اکٹر نکل جائیگی۔ ﴿مُّرِیْبٍ﴾ کے یہ معنی بھی ہیں کہ وہ شک میں مبتلا کرنے والا ہے، جیسے پہلے فرمایا کہ وہ بخیل ہی نہیں، بخل پر آمادہ بھی کرتاہے،اسی طرح﴿مُّرِیْبٍ﴾ خود بھی شک میں پڑا ہوا اور دوسروں کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے والااور حدودِشرعیہ میں مصالح کی رعایت یا حالات کی ناموافقت کا الزام لگا کر شکوک وشبہات میں ڈالتا ہے یہ بھی گویا منعِ خیر ہی کی ایک کوشش ہے۔ منعِ خیر کی عموماً دو صورتیں ہوتی ہیں : ۱۔ جبر واکراہ سے ۲۔ شبہات ومغالطات سے پہلی کا تعلق حکمرانوں اور دولتمندوں سے ہے، جبکہ دوسری کا تعلق تجدد پسندوں اور علماء و خطباے سوء سے ہے، جو انسانوں کے دلوں میں غلط وسوسے پیدا کرتے ہیں اور سلف صالحین سے ہٹ کر اپنے غلط افکار واعمال کے لیے نت نئے دلائل تراشتے ہیں۔برعکس مومن صادق کے،کہ وہ ایمان پر پوری بصیرت سے قائم ہوتا ہے ا ور پوری بصیرت سے اس کی دعوت دیتا ہے ۔جیسے فرمایا: ﴿قُلْ ہٰـذِہِ سَبِیْلِیْ أَدْعُوْ إِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾( یوسف :۱۰۸) ’’کہہ دیجئے یہ ہے میری راہ ،میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت سے اللہ کی دعوت دیتے ہیں۔‘‘