کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 128
سے بھی گریز کرتا تھا(الماعون:۷) اسی طرح فرمایا:﴿وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَo الَّذِیْنَ لَایُؤْتُوْنَ الزَّکَاۃَ﴾ (حم السجدۃ :۶،۷) ’’تباہی ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوٰۃ نہیں دیتے ۔‘‘ گویا یہ کافرو مشرک جہاں اللہ کا ناشکرا ہے وہاں اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرکے مالی انعامات میں بھی ناشکری کرتا ہے۔ کفرکرکے یہ اللہ کا حق مارتا ہے اور زکوٰۃ اور مال خرچ نہ کر کے بندوں کا حق مارتا ہے، بلکہ یہ جہاں خودخیرات نہیں کرتا دوسروں کو بھی خیرات کرنے سے روکتا ہے۔خود ہی بخیل نہیں دوسروں کو بھی بخیل بناتا ہے۔
بعض نے’’خیر‘‘ سے مراد ایمان لیا ہے۔ جس کے خیر ہونے میں بھی کوئی ریب ہو سکتا ہے؟ گویا وہ خود ہی کافر اور نا شکرا نہیں، دوسروں کو بھی دولتِ ایمان سے روکتا ہے۔ اور اس سے روکنے کے لیے مختلف اسباب اختیار کرتا ہے۔ جیسے کفارِ مکہ کے سردار نضر بن حارث نے لونڈیاں خریدیں ، شاہانِ عجم کے قصے ، رستم واسفند یار کی داستانیں لا کر قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنی شروع کر دیں تاکہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیقرآنِ مجیدسننے اور آپ کی مجلسوں میں جانے سے رک جائیں۔ جس کسی کے بارے میں اسے پتا چلتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متأثر ہو رہا ہے وہ اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اسے کہتا کہ اسے خوب کھلاؤ پلاؤ ،گانا سناؤ تاکہ یہ تیرے ساتھ مشغول ہو جائے اور اس کا دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر لوگوں کو قرآن سنائیں تو مقابلے میں تم مجرا دکھاؤ اور محفلِ موسیقی سجاؤ ،کافر کے عنادکا ایک پہلویہ بھی ہے۔
بلکہ’’خیر‘‘ میں تمام امورِخیر شامل ہیں، اور اُمت وسطیٰ کو تو حکم یہ ہے کہ وہ خیر کے داعی بنیں:
﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ إِلیٰ الْخَیْرِ ﴾( آلِ عمران:۱۰۴)
’’تم میں ایک جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی دعوت دے۔‘‘
امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کرے، یہ مومن کے اوصاف میں شامل ہے، مگر کافر ومنافق منکر پھیلاتا ، اس کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے اور معروف سے روکتا اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔