کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 127
کافر سے اپنی براء ت کا اظہار کرے گا جیسا آئندہ آیت (۲۷) میں آرہا ہے چہ چائیکہ وہ مجرم کو خود لے کر حاضر ہو جائے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ہر ایک انسان کا ایک ’’قرین‘‘ ساتھی جن اور ایک ’’قرین‘‘ ساتھی فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے ساتھ بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ساتھ بھی ،لیکن اللہ تعالیٰ نے ا س کے مقابلے میں میری مدد فرمائی ہے وہ مسلمان ہو گیا ہے اور وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتا۔( مسلم : ۷۱۰۸،۷۱۰۹ وغیرہ)ممکن ہے اس آیت میں’’قرین‘‘ سے مراد یہی فرشتہ ہو اور آیت(۷۲) میں’’قرین‘‘ سے مراد شیطان جن ہو۔ واللہ اعلم
جہنم کی سزا جن جرائم کی بنا پر سنائی جائے گی ان میں یہاں پہلا جرم’’کفار‘‘ بیان ہوا ہے ،جو مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بڑا کافر، جس کے معنی ہیں حق کا انکار اور بہت ہی ناشکر ی کرنے والا۔ دوسرا جرم ﴿عَنِیْدٍ ﴾ذکر کیا گیا ۔﴿عَنِیْدٍ ﴾کے معنی معاند ،مخالف اور ضدی کے ہیں۔ گویا کافر اور ناشکرا ہی نہیں معاند بھی ہے۔ حق کو جان کر بھی حق کی مخالفت کرتا ہے، اور حق کو نیچاد کھانے کی پوری کوشش کرتا ہے گویا شیطان کی طرح، وہ ہم توڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے، کا مصداق ہے۔
تیسرا جرم یہ ہے کہ وہ﴿مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ ﴾’’خیر سے بہت روکتا ہے۔‘‘ ’’خیر‘‘ کا اطلاق ہر مرغوب اور پسندیدہ چیز پر ہوتا ہے، مثلاً عقل، عدل، مال اور تمام مفید اور نفع بخش چیز یں۔اور آیت میں خیر سے مراد بعض نے مال لیا ،کیونکہ بہت سی آیات میں مال پر اس کا اطلاق ہوا ہے، ملاحظہ ہو :البقرۃ(۱۸،۱۱۵،۱۹۷) العادیات(۸)وغیرہ۔ تو وہ گویا زکوٰۃ دینے صدقہ وخیرات کرنے سے روکتا ہے۔ یتیموں اور مسکینوں پر خرچ نہیں کرتا اور مال کی محبت میں سرشار رہتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الفجر(آیت ۱۷ سے ۲۰) میں ہے اور سورۃ الحاقہ (آیت ۳۴) اور سورۃ الماعون(۳) میں بھی ہے: ﴿وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ﴾ (الحاقہ:۳۴) ’’اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔‘‘ حتی کہ معمولی چیزیں دینے