کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 126
﴿وَقَالَ قَرِیْنُہٗ ہَذَا مَا لَدَیَّ عَتِیْدٌo أَلْقِیَا فِیْ جَہَنَّمَ کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْدٍo مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ مُّرِیْبٍo﴾ ( ۲۳ ،۲۴ ،۲۵) ’’اس کاساتھی کہے گا یہ جو میری تحویل میں تھا ﴿عَتِیْدٌ﴾ حاضر ہے۔ (حکم دیا جائے گا) پھینک دو جہنم میں ہر ناشکرے معاند کو، خیر سے روکنے والے اور حد سے تجاوز کرنے ، شک میں مبتلا ہو نے والے کو‘‘ امام مجاہد، حسن بصری اور قتادہ رحمہم اللہ وغیرہ فرماتے ہیں’’قرین‘‘(ساتھی) سے مراد وہی ﴿سائِق﴾ ہے جس کی نگرانی میں انسان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیا جائے گا اور وہی عرض کرے گا کہ یہ میری سپرد گی میں تھا، لیجئے یہ حاضر ہے۔ امام ابنِ جریر رحمہ اللہ اور ابنِ کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ﴿سائِق﴾اور﴿شھید﴾دونوں کے لیے عام ہے۔ جیسے کہ بعد کی آیت سے اس کی تائید ہوتی ہے، کہ جب قرین وشہید اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اور جرم ثابت ہو جائے گاتو ان دونوں سے کہا جائے گا کہ اسے جہنم میں ڈال دو۔مگر ائمۂ ادب ولغت نے فرمایا ہے کہ تثنیہ کا صیغہ کبھی کلامِ عرب میں صرف تکرارِ فعل کے لیے ہوتا ہے۔ دو افراد مراد نہیں ہوتے جیسے مشہور جاہلی شاعر امرؤ القیس نے کہا ہے: قِفَانَبْکِِ مِنْ ذِکْرِ حَبِیْبٍ ومَنْزَلِ یہاں’’قفا‘‘ سے دو ساتھیوں کا ٹھہرنا مراد نہیں، بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ ٹھہرو ، ٹھہرو محبوب اور محبوب کی منزل پر دو آنسو بہالینے دو۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا: کہ بعض عرب مفرد کو تثنیہ سے مخاطب کرتے ہیں، جیسا کہ حجاج نے کہا تھا یَاحَرْسِیْ اِضْرِبَاعُنَقَہٗ ’’اے سپاہی اس کی گردن اڑا دو۔‘‘اسی طرح﴿أَلْقِیَا﴾ میں بھی دو کو حکم نہیں،بلکہ مراد یہ ہے کہ ڈال دو، ڈال دو اس کو، پھینک دو پھینک دو اس کو جہنم میں۔بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ’’قرین‘‘ سے مراد شیطان ہے،مگر یہ بات قرینِ قیاس نہیں،کیوں وہ تو