کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 125
۴۔ چوتھی حالت تب ہوگی جب انھیں جہنم میں لے جایا جائے گا، اس حالت میں وہ گونگے بہرے اور اندھے بنا دیئے جائیں گے۔
۵۔ پانچویں حالت جہنم میں جانے کے بعد ہے، مگر یہ حالت اپنی ابتدائی اور آخری صورت کے اعتبار سے مختلف ہو گی۔ ابتدائی حالت جب وہ جہنم تک پہنچیں گے تب وہ اندھے بہرے ہوں گے، تاکہ ان کی ذلت میں اضافہ ہو اور دوسروں سے وہ ممتاز ہوں، انھی کے بارے میں غالباً یہ ارشاد ہے:
﴿یُعْرَفُ الْمُجْرِمُوْنَ بِسِیْمَاہُمْ فَیُؤْخَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْأَقْدَامِ﴾ (الرحمن:۴۱)
’’مجرم اپنی نشانیوں سے پہنچانے جائیں گے ۔تو انہیں پیشانی اور پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹ کر جہنم رسید کر دیا جائے گا۔‘‘(أعاذنا اللہ منہ)جہنم میں جانے کے بعد انھیں پھر کامل اعضاء وجوارح دے دیئے جائیں گے، تاکہ وہ جہنم کا مشاہدہ کریں، اور جس کی تکذیب کرتے تھے ا سے مکمل طور پردیکھ لیں۔ یہاں ان کی باہم تو تکار ہو گی اور ایک دوسرے پر لعن وطعن کریں گے، اہلِ جنت کو پکاریں گے ان سے کھانے پینے کی اشیاء طلب کریں گے،جیسا کہ قرآنِ مجید میں اس کی تفصیل ہے اور آخر کار وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ ہمیں یہاں سے نکالا جائے اگر ہم پھر یہی کچھ کریں تو ہم فی الواقع ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: یہیں ذلیل ورسوا ہو کر رہو اور بات نہ کرو۔ بالآخر موت کو مینڈھے کی صورت میں لا کر ذبح کیا جائے گا، اور جنتیوں سے کہا جائے گا تم ہمیشہ جنت میں اور جہنمیوں سے کہا جائے گا کہ تم ہمیشہ جہنم میں رہو گے۔ أعاذنا اللہ منہ۔
دنیا میں چونکہ انھوں نے کانوں ،آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ دوسروں کو قرآنِ مجید اور دعوتِ حق سننے سے روکتے رہے، خود کہتے تھے ہمارے کانوں میں’’وقر‘‘ بوجھ ہے، اپنا چہرا چھپا لیتے، کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے تھے،زبان سے ایمان لانے کی بجائے دعوتِ حق کی تکذیب کرتے رہے، اسی بنا پر جہنم میں اور آخرت میں ان کو اندھا، گونگا اور بہرا کر دیا جائے گا۔(التذکرۃ :ص ۲۵۰،۲۵۲)