کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 124
قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا :اے میرے رب! دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا گیا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہاں، اسی طرح تو ہماری آیات کو، جبکہ وہ تیرے پاس آئی تھیں، تو نے بھلا دیا تھا، اسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے۔‘‘
سورۃ طٰہٰ ہی میں ہے:
﴿یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَئِذٍ زُرْقاً﴾ (طہ:۱۰۲)
’’جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی۔ ‘‘
یہ آیات بظاہر اس آیت کے معارض معلوم ہوتی ہیں۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے، میدانِ محشر میں انسان کے جو احوال بیان ہوئے ہیں ان کے بارے میں، فرمایا ہے کہ یہ اختلاف مختلف احوال کی بنا پر ہے۔ میدانِ محشر میں پانچ حالتیں ہوں گی:
۱۔ قبر سے نکلنے کی حالت اس حالت ،میں کفار کے اعضاء وجوارح مکمل ہوں گے۔ تبھی وہ باہم باتیں کریں گے، جیسا کہ قرآن پاک میں﴿یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَھُمْ﴾ (یونس:۴۵)، ﴿یَتَخَافَتُوْنَ بَیْنَھُمْ﴾ (طٰہٰ:۱۰۳)، ﴿قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِیْ الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ ﴾ (المؤمنون :۱۱۲)الآیہ ،آیا ہے۔
۲۔ دوسری حالت حساب کے لیے جانے کی ہے، اس وقت بھی وہ تمام حواس سے ہوں گے ، یہاں ان سے سوال جواب ہوں گے، ظاہر ہے کہ وہ اس وقت گونگے ،بہرے اور اندھے نہیں ہوں گے۔
۳۔ تیسری صورت محاسبہ کی ہو گی۔ اس حالت میں بھی وہ کامل جوارح سے ہوں گے،وہ اپنا نامۂ اعمال پڑھیں گے، ان کے اعضاء سے باز پرس ہو گی،اسی حالت میں وہ کہیں گے : ﴿ مَالِ ہٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَلَا کَبِیْرَۃً إِلَّا أَحْصَاہَا﴾ (الکہف:۴۹)’’اس کتاب کے لیے کیا ہے کہ اس نے کوئی کمی نہیں کی ،چھوٹا ،بڑا سب جمع کر دیا ہے۔‘‘