کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 123
حقائق کو وہ نہیں دیکھ سکتا، آخرت کے مقابلے میں یوں دنیا خواب کی زندگی ہے،مگر یہ خواب کا عالم جب ختم ہو گا آنکھیں کھل جائیں گی تو سارے حقائق اس کے سامنے کھل جائیں گے۔ اور اسی لیے بعض اہلِ علم نے فرمایا ہے:النَّاسُ نِیَامٌ فَإِذَا مَاتُوْا انْتَبَھُوْا ’’ کہ اس دنیا میں انسان سوئے ہوئے ہیں جب مریں گے تو تب جاگیں گے۔‘‘ قاضی ابنِ عطیہ اندلسی نے المحرر الوجیز میں اس جملہ کو بطورِ مرفوع روایت ذکر کیا ہے ،مگر یہ صحیح نہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الضعیفۃ (۱۰۲) میں فرمایا ہے لا أصل لہ یعنی مرفوعاً اس کی کوئی اصل نہیں۔ نظر کی اسی تیزی اور مضبوطی کی بنا پر تمام امورِ آخرت اس پر منکشف ہو جائیں گے۔ اپنی نیکیوں اور گناہوں کو دیکھے گا، جنت و دوزخ کا دور سے مشاہدہ کرے گا۔ اور مؤمن صادق جنت میں اپنے مولیٰ کے دیدار کاشرف پائے گا۔ ایک اشکال کا جواب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں تو ذکر ہے کہ قیامت کے روز آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا جائے گا اور نگاہ تیز ہو جائے گی جبکہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ﴿وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلیٰ وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْماً وَصُمّاً﴾الآیہ (الإسراء :۹۷) ’’ان کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ کر لائیں گے، اندھے ،گونگے اور بہرے۔‘‘ اسی طرح فرمایا: ﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمٰیo قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْراًo قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنسٰی﴾ (طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۵،۱۲۶) ’’جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے معیشت تنگ ہو گی اور