کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 122
کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنھوں نے کفر کیا، وہ کہیں گے ہائے ہماری شامت! ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔‘‘
غفلت کے اعتراف کے ساتھ اپنے ظلم کا اعتراف ،حقیقت کا اظہار ہے کہ غفلت کیا، ہمیں تو اس سے خبردار کیا گیا تھا مگر ہم نے ایک نہ سنی اور اس کے انکار پر اڑے رہے۔اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت کا مخاطب کافرومومن دونوں ہوں گے۔اسی قول کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے۔ مؤمن ہے تو یہ سارا منظر دیکھ کر اس کا یقین بڑھ جائے گا، جو جزئیات اس سے مخفی تھیں ان کا علم ہو جائے گا، اس لیے مومن بھی قیامت کی شدت پوری طرح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے غافل ہی کی طرح ہے،بلکہ مسلمان بھی اکثر وبیشتر دنیوی مشاغل اور اس کی زیب وزینت میں مگن ہو کر اور تکاثر کی بیماری میں مبتلا ہو کر آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی بنا پر علی العموم فرمایا گیا ہے:
﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ (الانبیاء :۱)
’’لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا مگر وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔‘‘
شیخ ابو العتاہیہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
الناس فی غفلا تھم ورحی المنیۃ تطحن
’’موت کی چکی زور سے چل رہی ہے اور لوگ غفلتوں میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اس شعر کا تصور کہاں سے لیا ہے تو انھوں نے یہی آیت ﴿اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ﴾ تلاوت کی اور فرمایا کہ اس آیت سے (ابن کثیر) ۔اس لیے آیت کے مفہوم میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ کفار میں یہ غفلت انکار کے پہلو میں ہے اور مسلمان میں تساہل وتکاثر کے اعتبار سے ہے۔
علاوۂ ازیں آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت خواب وغفلت کی ہے اور آخرت کی مثال یقظہ اور بیداری کی ہے۔ خواب میں جس طرح انسان کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور وہ کچھ نہیں دیکھتا اسی طرح دنیا میں آخرت کے