کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 121
﴿لَقَدْ کُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ﴾ (۲۲) ’’بے شک تو اس کی طرف سے غفلت میں تھا، ہم نے تمھارے اوپر پڑے ہوئے پردے کو ہٹا دیا تو آج تیری نگاہ بہت تیز ہے۔‘‘ قیامت کے دن اللہ کے ہاں پہنچ جانے پر اسے تنبیہ کی جائے گی کہ اس دن کے بارے میں تم شک میں پڑے ہوئے تھے۔ تمھاری غفلت دور کرنے کے لیے اللہ نے رسول بھیجے ، حشرو نشر کے دلائل دیئے ،مگر تمھیں یقین نہ آیا ،کاہنوں اور نجومیوں کی باتوں پرتمھیں یقین آتا تھا، مگر میرے سچے اور صادق رسولوں کی باتوں پر تمھیں یقین نہیں آتا تھا، مگر آج تمھاری آنکھیں کھل گئی ہیں ا ور وہ سب چیزیں دیکھ رہے ہو جن کا امکان تمھیں دور دور نظر نہیں آتا تھا۔ اس آیت کا مخاطب کون ہو گا؟ بعض نے کہا کہ مراد کفار ہیں، ظاہر ہے کہ وہ اس کے اولین مصداق ومخاطب ہیں اور وہی کفِ افسوس ملیں گے جن کے بارے میں بتلایا گیا ہے: ﴿وَلَوْ تَرٰی إِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُؤُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ رَبَّنَآ أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحاً إِنَّا مُوْقِنُوْنَ ﴾ (السجدۃ:۱۲) ’’کاش تم وہ وقت دیکھو جب مجرم سر جھکائے اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے۔( اوراس وقت کہہ رہے ہونگے )اے ہمارے رب! ہم نے خوب دیکھ لیا اور ہم نے سن لیا، اب ہمیں واپس بھیج دیں تاکہ ہم نیک عمل کریں، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔ ‘‘ کفار ہی کے بارے میں ارشاد ہے: ﴿وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ أَبْصَارُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَا وَیْلَنَا قَدْ کُنَّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا بَلْ کُنَّا ظٰلِمِیْنَ ﴾ ( الا نبیاء:۹۷) ’’اور وعدۂ حق کے پورے ہونے کا وقت قریب آلگے گاتویکایک ان لوگوں