کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 120
مراد وہ فرشتہ ہے جس کا ذکرالمتلقی سے ہوا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ﴿إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ﴾ میں ’’التلقی‘‘ استقبال کے مفہوم میں ہے، اخذ کرنے اور حاصل کرنے کے معنی میں نہیں۔ مقصد یہ ہے المُتَلَقِّیَانِ سے وہ دو فرشتے مراد ہیں جو جان کنی کے بعد ملک الموت سے روح لے لیتے ہیں، ایک ان میں صالحین کی روح لینے والا ہوتا ہے اور دوسرا طالحین کی، اور وہ دونوں دائیں بائیں ’’قعید‘‘ بیٹھے نامۂ اعمال لکھنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ کس جانب اور کس قبیل کے ہیں۔ اگر وہ نیک ہے تو بخوشی فرشتہ روح ملک المسرور کو دے دیتا ہے اور اگر وہ گناہ گار ہوتا ہے تو افسوس سے روح ملک العذاب کو دے دیتا ہے۔ اسی تناظر میں وہ فرماتے ہیں کہ شھید سے مراد’’ قعید‘‘نامۂ اعمال لکھنے والاہے اور سائِق سے ملک الموت سے روح لینے والا مراد ہے جو اسے اس کی برزخی منزل میں لے جاتا ہے، اور اس تأویل کو انھوں نے اقرب الی الفہم اور زیادہ معروف قرار دیا ہے۔ (التفسیرالکبیر) واللہ تعالیٰ اعلم