کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 119
﴿وَجَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَائِقٌ وَشَہِیْدٌ﴾ (۲۱) ’’اور ہر انسان آگیا ، اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا اور ایک گواہی دینے والا۔‘‘ یہ روزِ قیامت انسان کی اللہ کی عدالت میں حاضری کی کیفیت کا بیان ہے کہ ایک فرشتہ﴿سائِق﴾ اس کے ساتھ چلانے والا یا ہانک کرلے جانے والا ہو گا جو اسے چلا کر حساب کے لیے پیش کرے گا۔ اور دوسرا فرشتہ﴿ شَہِیْدٌ ﴾ بطورِ گواہ ساتھ ہو گا، جو اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دے گا۔ یہی قول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ،امام مجاہد رحمہ اللہ ، قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے ۔امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے، اور آیت کے الفاظ بھی اسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مگر ایک قول یہ ہے کہ سائِق سے مراد فرشتہ اور شھید سے انسان کا عمل مراد ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ الشھید سے انسان کا اپنا نفس مراد ہے،اور بعض نے شھید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض نے نامۂ اعمال مراد لیا ہے، مگر یہ قول بداہتاً سیاقِ قرآن کے موافق نہیں۔گو انسان کے حساب کتاب کے مناسبِ حال بطورِ گواہ اس کا نامۂ اعمال، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،خود انسان کے اعضاء وجوارح اور زمین ومکان جہاں اس نے نیک یا برا عمل کیا ہو گا سب بطورِ گواہ پیش ہوں گے، لیکن پہلا مرحلہ حاضری کی کیفیت کا ہے جس کا اس آیت میں بیان ہے ۔یہ کیفیت بعینہ ویسی ہے جیسے عدالت میں لے جانے والے مجرم کی ہوتی ہے کہ ایک سپاہی مجرم کو لے جانے والا اور دوسرا سرکاری وکیل کی حیثیت سے اس کے جرائم وکوائف کی گواہی دینے والا ہوتا ہے۔ ان دونوں فرشتوں کے بارے میں بعض نے کہا کہ مراد وہ دو فرشتے ہیں جو ہر انسان کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں، اور بعض نے کہا نہیں یہ علیحدہ حیثیت سے دو فرشتے ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ امام رازی رحمہ اللہ نے سب سے جدا موقف اختیار کیاہے، فرماتے ہیں کہ الشھید سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کا ذکر پہلے قعید کے لفظ سے ہوا ہے۔ اور سائِق سے