کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 118
اور کھٹکھٹانا۔ آفت اور ہولناک حادثہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔﴿ الْقَارِعَۃُo مَا الْقَارِعَۃُo وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْقَارِعَۃُ ﴾ (القارعہ :۱۔۳)’’کھڑ کھڑانے والی، کیا ہے وہ کھڑکھڑانے والی، اور آپ کیا جانیں کہ کھڑکھڑانے والی کیا ہے۔‘‘ ۱۸۔ الطامۃ الکبری:طم علی کذا،کے معنی ہیں ایسی بڑی آفت جو چھا جائے اور ڈھانپ لے،قیامت کو طامہ اس لیے کہا گیا کہ اس کی مصیبت سب پر چھا جائے گی، اس کے ساتھ الکبری لا کر مزید اس آفت کی شدت کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿فَإِذَا جَآئَ تِ الطَّامَّۃُ الْکُبْرَیٰ﴾ (النازعات:۳۴) ’’پھر جب بڑی آفت آئے گی۔‘‘ ۱۹۔ یوم الآزفۃ: قریب کا دن ،قیامت کا دن گویا قریب ہے دور نہیں۔ ﴿وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْآزِفَۃِ ﴾ (المؤمن:۱۸)’’ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراؤ۔‘‘ ۲۰۔ الغاشیۃ: ڈھانپنے والی ، چھا جانے والی مصیبت کو کہتے ہیں۔ ﴿ہَلْ أَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ ﴾(الغاشیۃ:۱)’’بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی یعنی قیامت کا حال معلوم ہے۔‘‘ ان کے علاوہ بھی قرآنِ مجیدمیں قیامت کے نام آئے ہیں۔ اور کچھ نام وہ ہیں جو معانی ومفہوم کے اشتقاق کی بنیاد پر ہیں۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے البدور السافرۃ فی ا لأمور الآخرۃ (ص:۴۲) میں فرمایا ہے کہ قیامت کے تقریباً سو نام ہیں۔ انھوں نے ۷۷ نام ذکر کیے ہیں۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے النھایہ(ص ۲۰۰،۲۰۱ج۱) میں حافظ عبد الحق الاشبیلی رحمہ اللہ کی کتاب العاقبۃ کے حوالے سے( ۸۵) نام ذکر کیے ہیں۔ اہلِ عرب کے ہاں نام کی کثرت مسمی کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے، اس اعتبار سے بھی قیامت کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک تلوار کی اہمیت کی بنا پر ہی اس کے سات سو نام ہیں۔