کتاب: تفسیر سورۂ ق - صفحہ 117
فلاں فلاں حساب کے لیے حاضر ہو۔ ﴿یَا قَوْمِ إِنِّیْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ﴾(المؤمن:۳۲) ’’اے میری قوم میں تمھارے بارے میں تناد کے دن سے خوف کھاتاہوں۔‘‘
۱۰۔ یوم الجمع: تمام مخلوق کے جمع ہونے کا دن۔﴿لِّتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہٖ ﴾ (الشوری:۷)’’تاکہ تو بستیوں کے مرکز (مکہ والوں) کو ڈرائے اور لوگوں کو بھی جو اس کے ارد گرد ہیں اور تواکٹھا کرنے کے دن سے ڈرائے جس میں کوئی شک نہیں۔‘‘
۱۱۔ یوم التغابن:ہار جیت کادن۔﴿ یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ﴾ (التغابن:۹)’’جس دن وہ تمھیں جمع کرنے کے دن کے لیے جمع کرے گا۔‘‘
۱۲۔ یوم الوعید: عذاب کا دن،جس کا ذکر اسی سورۃ ق (۲۰) میں ہوا ہے۔
۱۳۔ یوم الخروج: قبروں سے نکلنے کا دن۔ جس کا ذکر اسی سورہ قٓ(۴۲) میں ہوا ہے۔
۱۴۔ الواقعۃ: سختی کا دن واقعہ ہونے والا ﴿ إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُo لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ﴾ (الواقعہ :۱،۲)’’ جب سختی کا دن واقع ہونے والا واقع ہو جائے گا اس کے واقع ہونے میں کوئی جھوٹ نہیں۔‘‘
۱۵۔ الحاقۃ:اس لیے کہ اس میں جزائے اعمال سچ سچ واقع ہو گی۔ ﴿ الْحَاقَّۃُo مَا الْحَاقَّۃُo وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْحَاقَّۃُ ﴾ (الحاقہ:۱۔۳)’’سچ مچ واقع ہونے والی، وہ سچ سچ واقع ہونے والی کیا ہے، اور آپ کیا جانیں کہ وہ سچ مچ ہونے والی کیا ہے۔‘‘
۱۶۔ الصاخۃ: آواز کی سختی اور کرخت پن جوبہرہ کر دے،یہ صور اور جہنم کی آواز کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿فَإِذَا جَآئَ تِ الصَّاخَّۃُ﴾ (عبس:۳۳) پس جب سخت آواز آئے گی، اسی سے أصَاخَ یُصِیْخُ ہے جس کے معنی ہیں آواز کی سختی جو بہرہ کر دینے والی ہو۔(مفردات)
۱۷۔ القارعۃ: کھڑ کھڑانے والی ،’’قرع‘‘ کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز سے مارنا